سعید احمد جلال پوری
الحمدللھ وسلام علی عبادھ الذین اصطفی!
”جیو “ٹی وی کی جانب سے نشر کردھ توھین رسالت پر مشتمل فلم ”دی میسج“ کی آمدنی سے زلزلھ زدگان کی امداد کے حوالھ سے مدیر”بینات“کو روزنامھ ”جنگ“ کے ایک قاری کاسوالیھ خط موصول ھوا‘ مدیر” بینات“ کے مرض کی وجھ سے وھ خط اور مدیر ”بینات“ کے جواب کواس ماھ کے ” بصائر و عبر“ میں افادئھ عام کے لئے شائع کیا جارھا ھے۔
سوال:… بلا تمھید عرض ھے کھ رمضان المبارک ۱۴۲۶ھ کے مقدس مھینے میں مملکت پاکستان کو زلزلے کی تباھ کاریوں کی بدولت شدید نقصان پھنچا‘ اس مشکل گھڑی کا مقابلھ کرنے کے لئے ملک کی دینی و سیاسی تنظیمیں‘ رفاھی ادارے اور حکومت پاکستان بھی زلزلھ زدگان کی مدد کے لئے کمربستھ ھوگئیں‘ کیبل کے ذریعے نشریات پیش کرنے والا ایک نجی (پرائیویٹ) چینل جیو ٹیلی ویژن نے بھی اس سلسلے میں اپنی سرگرمیاں تیز کردیں‘ ان ھی دنوں جیو ٹیلی ویژن سے ایک فلم‘ جس کا نام ”دی میسج“ (The Message) ھے‘ کی جھلکیاں بار بار دکھائی جانے لگیں اور اس فلم کے اشتھارات پاکستان کے سب سے بڑے اردو روزنامھ جنگ میں بھی شائع ھونے لگے‘ جیو ٹیلی ویژن یھ بات بھی نشر کررھا تھا کھ اس فلم سے ھونے والی آمدنی سے زلزلھ زدگان کی مدد کی جائے گی‘ لیکن یھ بات نھیں بتائی گئی کھ فلم دیکھنے سے کس طرح آمدنی ھوگی اور کس طرح زلزلھ زدگان کی مدد کی جاسکے گی؟
مولانا صاحب! جس شخص نے یھ فلم بنائی ھے‘ اس کا کھنا ھے کھ یھ فلم اسلام کو سمجھنے میں معاون ثابت ھوگی‘ غیرمسلموں کے سامنے اسلام کو صحیح طور پر پیش کیا جاسکے گا‘ یھ فلم دیکھنے سے ایمان تازھ اور مضبوط ھوگا۔ (نعوذباللھ)
فلم کے ڈائریکٹر کا کھنا ھے کھ یھ فلم حقیقی واقعات پر مبنی ھے‘ اس کی تیاری کے لئے جامعھ الازھر کے مفکرین اور اسکالروں کی مدد حاصل کی گئی ھے‘ یھ فلم انگریزی زبان میں بھی نشر کی گئی اور اردو ترجمے کے ساتھ بھی نشر کی جارھی ھے‘ جس وقت میں یھ سطور قلم بند کررھا ھوں‘ اس وقت تک اس فلم کو تین مرتبھ چلایا جاچکا ھے‘ جیو ٹیلی ویژن اس فلم کا بھت چرچا کررھا ھے اور ایسے پروگرام بھی نشر کررھا ھے‘ جس میں اس فلم سے متعلق تعریفیں کی جارھی ھیں۔ الحمدللھ! میں نے پوری فلم تو نھیں دیکھی‘ لیکن چند جھلکیاں دیکھی ھیں‘ جو آپ کی خدمت میں پیش ھیں:
فلم میں نھ صرف اسلام سے قبل زمانھ جاھلیت کے دور کی منظر کشی کی گئی ھے‘ بلکھ بڑے بڑے صحابھ کرام رضی اللھ عنھم‘ مثلاً: حضرت بلال رضی اللھ عنھ اور دیگر مقدس ھستیوں کا مختلف اداکاروں نے باقاعدھ کردار ادا کیا ھے‘ معاذاللھ‘ حضرت بلال رضی اللھ عنھ کا اذان دینا‘ ان پر کافروں کی جانب سے سختیاں کیا جانا‘ وغیرھ‘ فلم بند کیا گیا ھے‘ نعوذباللھ‘ حتی کھ حضور پُرنور صلی اللھ علیھ وسلم کی ذاتِ مقدسھ کا بھی کسی ملعون اداکار نے کردار ادا کیا ھے‘ نعوذباللھ‘ فلم میں اس آدمی کا چھرھ تو واضح نھیں ھے‘ لیکن اسے چلتے پھرتے دکھایا گیا ھے۔
یھ الفاظ لکھتے ھوئے میرے ھاتھ کانپ رھے ھیں‘ حضور صلی اللھ علیھ وسلم کی مدینھ شریف ھجرت کے واقعھ کی نعوذباللھ منظر کشی کی گئی ھے‘ دکھایا گیا ھے کھ دف بجائے جارھے ھیں‘ لوگ انتظار میں کھڑے ھیں‘ ایک شخص جس کا چھرھ واضح نھیں ھے‘ سفید اونٹ پر سوار آرھا ھے (نعوذباللھ ‘استغفراللھ)۔
فلم کی ایک اور جھلکی میں دکھایا گیا ھے کھ بت رکھے ھوئے ھیں‘ ایک شخص چھڑی کی مدد سے بتوں کو گراکر توڑ رھا ھے‘ معاذاللھ‘ میرے جان پھچان کے لوگوں میں سے جنھوں نے فلم دیکھی ھے‘ ان کا کھنا ھے کھ حضور صلی اللھ علیھ وسلم کی زندگی کے اوپر فلم بنائی گئی ھے‘ حضور صلی اللھ علیھ وسلم کا مدینے ھجرت کرجانے کے دوران غار میں سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللھ عنھ کے ھمراھ قیام کرنا‘ غار کے منھ پر مکڑی کا جالا بننا‘ کبوتر کا انڈے دینا‘ مدینھ منورھ میں مسجد نبوی کی تعمیر‘ حضور صلی اللھ علیھ وسلم کا اینٹیں اٹھا اٹھا کر لانا‘ حضرت ابو ایوب انصاری کے گھر قیام کرنا وغیرھ‘ باقاعدھ ڈائیلاگ کے ساتھ فلمایا گیا ھے۔ نعوذباللھ۔
مولانا صاحب! مندرجھ بالا باتیں لکھنے کی مجھ میں سکت نھیں تھی‘ لیکن لوگ اس انداز میں یھ فلم دیکھ رھے ھیں کھ جیسے اس میں کچھ ھے ھی نھیں‘ میڈیا کے ذریعے یھ بات پھیلائی جارھی ھے کھ یھ فلم حقیقی واقعات پر مبنی ھے‘ لوگوں کے اندر یھ زھر تیزی سے سرایت کررھا ھے اور انھیں کچھ خبر ھی نھیں ھے ‘ آپ کے علم میں یھ بات لانا ناگزیر ھوگیا تھا‘ اس لئے بار بار توبھ کرنے کے بعد لکھنا شروع کیا‘ یھ سطور لکھتے ھوئے بھی توبھ کررھا ھوں‘ دل خون کے آنسو رو رھا ھے‘ ھاتھ کپکپارھے ھیں‘ جسم پر لرزھ طاری ھے‘ ھائے! ان مسلمانوں کا کیا ھوگا؟ جو اتنی بڑی توھین برداشت کررھے ھیں؟ توھین رسالت کو توھین نھیں سمجھ رھے؟
مجھے ابتدا رمضان ھی میں (جب فلم کی نمائش شروع کی گئی تھی) ان خرافات کا علم بذریعھ جھلکیاں ھوگیا تھا‘ لیکن میں یھ باتیں لکھتے ھوئے ڈررھا تھا‘ کانپ رھا تھا‘ ھمت نھیں ھورھی تھی‘ کھ کھیں ایسا لکھنا بھی توھین رسالت میں شامل نھ ھوجائے (یااللھ! مجھے معاف فرما) جب یھ زھر مسلسل گھولا جانے لگا‘ تو مجبوراً قلم اٹھایا۔
جیو ٹیلی ویژن نے اسی پر بس نھیں کیا‘ بلکھ افطار کے وقت جیو ٹیلی ویژن پر دکھائی جانے والی اذان میں بھی اس فلم کے چند مناظر دکھائے گئے‘ یھ خرافات اس تیزی سے پھیل رھی ھیں کھ جن لوگوں نے یھ فلم یا اس فلم کا کچھ حصھ دیکھا ھے‘ وھ اس کو بُرا سمجھنے پر بھی تیار نھیں ھیں‘ اگر سمجھاؤ‘ تو کھتے ھیں: ”اس میں تو سچے مناظر دکھائے گئے ھیں۔“ بعض کا کھنا ھے کھ : ”اگر کسی کو پڑھنا نھ آتا ھو‘ تو وھ دیکھ کر ھی اسلام کے ابتدائی حالات و واقعات کا مطالعھ کرسکتا ھے۔“ کچھ کا کھنا ھے کھ: ”بے شک اس فلم میں سیّدنا ابوبکرصدیق‘ ابو سفیان‘ حضرت بلال‘ حضرت ابو ایوب انصاری اور دیگر اکابر صحابھ رضی اللھ تعالیٰ عنھم کا کردار ادا کیا گیا ھے‘ لیکن حضور صلی اللھ علیھ وسلم کو کھیں بھی بولتے ھوئے نھیں دکھایا گیا اور نھ ھی واضح شکل دکھائی گئی ھے۔“ گویا ان لوگوں کے نزدیک اس فلم میں کوئی قابل ممانعت بات ھی نھیں پائی جاتی‘ اس طرح کی باتیں مسلمانوں‘ بلکھ اپنے حلقھ احباب کی زبانوں سے سن کر کلیجھ جیسے پھٹ رھا ھے‘ سینھ غم کے مارے چاک ھوا جارھا ھے‘ اے کاش! کھ زمین شق ھوجاتی اور میں اس میں سماجاتا‘ کاش! ایسی فلم میری زندگی میں نھ بنتی۔
پھلے تو مغربی ممالک کے عیسائی حضرات نے حضرت عیسیٰ علیھ السلام پر اور یھودیوں نے حضرت موسیٰ علیھ السلام کی زندگی پر فلم بنانے کی ناپاک جسارت کی تھی‘ لیکن اب تو جامعھ الازھر کی مدد سے ایک نام نھاد مسلمان نے بھی ایسا کر ڈالا‘ افسوس ھے! ان ناسمجھ مسلمانوں پر‘ جو اس فلم کی تشھیر کے لئے کام کررھے ھیں اور جو یھ فلم دیکھ رھے ھیں۔
مولانا صاحب! اب میں چند باتیں دریافت کرنا چاھتا ھوں‘ خدارا جلد از جلد جواب عنایت فرمایئے‘ تاکھ میں اپنے مسلمان بھائیوں (جو جیو ٹیلی ویژن کے خطرناک جال میں دانستھ یا نادانستھ پھنس گئے ھیں اور اس ٹی وی چینل کے مکرو فریب میں آکر اس فلم کے بنانے والوں اور دیکھنے والوں کو صحیح سمجھ رھے ھیں) کے سامنے آپ کا جواب بطور دلیل پیش کرسکوں۔
#… جن لوگوں نے یھ فلم بنائی ھے‘ جامعھ الازھر کے اسکالرز جنھوں نے اسے پاس کیا ھے‘ جن لوگوں نے اس فلم میں کردار ادا کیا ھے‘ فلم دیکھی ھے‘ نشر کی ھے‘ نشر کرنے میں معاونت کی ھے‘ یا اس فلم کے حق میں دلائل دے کر لوگوں کو بھکایا ھے‘ ان کے متعلق قرآن و سنت اور فقھ حنفی کی روشنی میں کیا حکم ھے؟
#… پاکستان کا سب سے بڑا اردو اخبار ”جنگ “بھی اس فلم کے اشتھارات وغیرھ چھاپ کر اس فلم کی خوب تشھیر کررھا ھے‘ اس کے متعلق کیا حکم ھے؟ کیا یھ گمراھی پھیلانے میں معاونت کرنا نھیں ھے؟
#… موجودھ صورت حال میں جنگ اخبار پڑھنا شرعاً کیسا ھے؟
#… اگر کسی نے یھ فلم یا اس کا کچھ حصھ دیکھ لیا ھو‘ لیکن اب توبھ کرنا چاھتا ھو‘ تو اس کا کیا طریقھ ھے؟ کیا کفارھ ھے؟
#… بحیثیت مسلمان ھمیں اس فلم کے خلاف کس طرح کے عملی اقدامات کرنے چاھئیں؟
#… اگر کسی شخص کو یھ فلم دیکھنے سے روکا جائے اور وھ تجسّس میں آکر خدا نخواستھ یھ فلم دیکھ لے‘ تو کیا اس کا گناھ اس شخص پر بھی ھوگا‘ جس نے اُسے یھ مکروھ فلم دیکھنے سے روکا تھا؟ میں اور میرے بھائی وغیرھ اسی خیال کی وجھ سے اس فلم کا تذکرھ کرنے سے بھی ڈر رھے ھیں‘ کیونکھ اگر کسی سے کھا جائے تو وھ اس فلم کے حق میں طرح طرح کی تاویلات پیش کررھے ھیں۔
مولانا صاحب! براھ مھربانی جلد از جلد جواب عنایت فرمایئے۔ اللھ تعالیٰ مجھے اور تمام مسلمانوں کو قوت کے ساتھ ان خرافات کا مقابلھ کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘ ھم سب کے ایمان کی حفاظت فرمائے‘ میری دعا ھے کھ اللھ تعالیٰ مجھے‘ آپ کو اور تمام مسلمانوں کو سرکار دو عالم صلی اللھ علیھ وسلم کی غلامی کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور حضور صلی اللھ علیھ وسلم اور صحابھ کرام رضی اللھ عنھم کی غلامی میں ھی خاتمھ فرمائے‘ اللھ تعالیٰ علمائے اھلِ حق‘ علمائے اھل سنت والجماعت کی حفاظت فرمائے‘ ھمیں صراطِ مستقیم پر چلنے اور علمائے اھل سنت سے قدم قدم پر رھنمائی لینے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔
حمزھ علی‘ کراچی
جواب:… جذبات سے لبریز آپ کا خط پڑھ کر ایمان تازھ ھوگیا‘ افسوس! کھ آپ کا رمضان کا لکھا ھوا خط مجھے ادارھ جنگ میں کام کرنے والے کرم فرماؤں کی مھربانی سے آج ۲۰/ ربیع الثانی ۱۴۲۷ھ کو ملا ھے‘ گویا پورے آٹھ ماھ بعد یھ خط ملا ھے اور اس وقت سے اب تک حالات کیا سے کیا ھوگئے ھیں؟ میں رمضان المبارک میں بیرون ملک تھا‘ واپسی پر مجھے کسی نے نھیں بتلایا‘ ورنھ بحیثیت ایک گناھ گار مسلمان‘ میں بھی اس پر احتجاج کرتا‘ میں نے لکھ تو دیا کھ اس پر احتجاج کرتا‘ مگر سمجھ نھیں آتا کھ اس شرمناک فلم پر اپنے کرب و الم کا اظھار کن الفاظ میں کروں؟ اور اس داستانِ درد و الم کو کن الفاظ کا پیرایھ پھناؤں؟ کراچی جیسا شھر جس میں کم و بیش ڈیڑھ کروڑ کلمھ گو مسلمان آباد ھیں‘ انھوں نے یھ کیسے برداشت کرلیا کھ ان کے مقدس نبی اور رشک ملائک صحابھ کرام کو فلمانے کی ناپاک جسارت کی گئی‘ اور ان نام نھاد مسلمانوں نے ٹھنڈے پیٹوں دنیا جھان کے اوباشوں کو نبی امی اور صحابھ کرام کے روپ میں دیکھنے کی ھمت بھی کرلی؟ اور وھ بھی رمضان جیسے مقدس ماھ میں!! اے اللھ! ھمارے اس جرم کو معاف فرما۔
بلاشبھ اس ذاتِ الٰھی کا حلم و تحمل تھا‘ ورنھ اس جرأت و گستاخی پر آسمان کو حق تھا کھ آگ برساتا اور زمین زندھ انسانوں کو نگل جاتی۔
یھ فلم بنانا‘ اس کے جواز کا فتویٰ دینا‘ اس کو نشر کرنا‘ اس کی اشاعت میں مدد کرنا‘ اس کے جواز اور مفید ھونے کے دلائل دینا‘ اس کو دیکھنا‘ لوگوں کو اس کے دیکھنے کی طرف راغب کرنا اور بھکانا‘ سب حرام و ناجائز ھے۔ اس فلم کو بنانے والا مصطفی عکاظ کوئی مسلمان نھیں تھا‘ بلکھ ایک لادین مستشرق تھا اور غالباً اس نے اپنے آقاؤں کے اشارھ پر توھینِ رسالت و توھینِ صحابھ پر مبنی یھ بدنام زمانھ فلم بنائی اور مسلمانوں کی مقدس شخصیات کو دنیا جھان کے کنجروں اور بدمعاشوں کی شکل میں دکھا کر مسلمانوں کے ایمان و عمل کو غارت کرنے اور ان مقدس شخصیات کی توھین و تنقیص کرنے کی کوشش کی۔ کیا کوئی سوچ سکتا ھے کھ فلم انڈسٹری کے کسی حیا باختھ انسان کو حضرت حمزھ، حضرت بلال، حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت خدیجھ کا نام د یا جائے؟ اس سے بڑھ کر یھ کھ کیا کسی مسلمان کا ایمان گوارا کرسکتا ھے کھ کسی کافر‘ مشرک‘ ملحد اور بے دین کو حضرت محمد مصطفی صلی اللھ علیھ وسلم کے طور پر پیش کیا جائے؟ اے کاش کھ جو کام آج تک اسلام کے ازلی دشمن نھیں کرسکے تھے ‘ وھ اب مسلمانوں کے ھاتھوں‘ مسلمانوں کے ملک میں اور مسلمانوں کے سامنے کیا جارھا ھے‘ اور طرفھ تماشایھ کھ اس کو اشاعتِ اسلام کا نام دے کر اسے دیکھنا ‘دکھانا اور اس کی نشرو اشاعت کو نیکی کا نام دیا جارھا ھے: چوں کفر از کعبھ برخیزد کجا ماند مسلمانی!
اس فلم کی نشرواشاعت کے سلسلے میں روزنامھ جنگ اور جیو ٹی وی کا یھ عمل سراسر غلط‘ ناجائز‘ لائقِ صد نفرت اور گستاخانھ ھے‘ مسلمانوں کو چاھئے کھ اس اسلام دشمن فلم اور توھینِ رسالت کی عالمی سازش کے خلاف بھرپور احتجاج کریں اور ٹی وی واخبارات کو ان کی اس اسلام دشمن گستاخانھ پالیسی سے باز آجانے پر مجبور کردیں۔
عام لوگوں کو نھایت سلیقھ سے اس بدترین فلم اور گھاؤنی سازش کے دیکھنے سے روکا جائے اور انھیں باور کرایا جائے کھ آقائے دو عالم صلی اللھ علیھ وسلم کی شبیھ بنانا‘ دیکھنا اور دکھانا سب ناجائز‘ حرام اور توھینِ رسالت کے زمرے میں آتا ھے‘ اسی طرح ان پر واضح کیا جائے کھ اگر ایک شریف انسان اپنے ماں‘ باپ‘ استاذ‘ شیخ یا اپنی کسی برگزیدھ شخصیت کو قابل اعتراض‘ نیم عریاں حالت میں اور کسی حیا باختھ انسان کے کردار میں دیکھنا گوارا نھیں کرسکتا‘ تو وھ اپنے محبوب از دل و جان اور سرور دو جھاں صلی اللھ علیھ وسلم ‘ حضرات صحابھ کرام جیسی مقدس شخصیات کو فلم کی اسکرین پر اور وھ بھی نھایت قابل اعتراض حالت میں دیکھنا کیونکر گوارا کرسکتا ھے؟
پھر جیسا کھ دوسرے ذرائع سے معلوم ھوا کھ حضرات صحابھ کرام کا کردار ادا کرنے والے ان غیرمسلموں کو فلم اسکرین پر آنحضرت صلی اللھ علیھ وسلم سے سخت کلامی اور تند و تیز لھجھ میں بات کرتے ھوئے بھی دکھایا گیا ھے‘ جس کا تکلیف دھ اور قابل اعتراض پھلو یھ ھے کھ گویا نعوذباللھ! حضرات صحابھ کرام ، حضور صلی اللھ علیھ وسلم کے ادب ناآشنا اور گستاخ تھے‘ اس سے جھاں اسلامی تعلیمات کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی ھے‘ وھاں حضرات صحابھ کرام کے رشک ملائک کردار کو بھی داغ دار کرنے کی ناپاک سعی کی گئی ھے‘ اس سے مسلمانوں کی نئی نسل پر جھاں منفی اثرات مرتب ھوں گے ‘وھاں وھ صحابھ کرام کے بارھ میں جو تاثر قائم کریں گے‘ وھ کسی سے پوشیدھ نھیں‘ الغرض گستاخی پر توبھ و استغفار کرنا چاھئے۔
اگر روزنامھ جنگ یا دوسرا کوئی اخبار باوجود تنبیھ کے اس بدترین کردار سے باز نھ آئے‘ تو اُسے اس حرکت سے باز رکھنے یا سبق سکھانے کے لئے‘ احتجاجاً اس کا بائیکاٹ کیا جائے‘ کیونکھ آخری درجھ میں ھم اتنا ھی کرسکتے ھیں۔
جن لوگوں نے اس فلم کو صحیح جان کر دیکھا ھے‘ ان کو بارگاھ الٰھی میں اس سے توبھ کرنا چاھئے۔ اس فلم کے سلسلھ میں مزید تفصیل درکار ھو تو حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلھ کا ایک مضمون ماھنامھ ”وفاق المدارس“ ملتان دسمبر ۲۰۰۵ء میں شائع ھوچکا ھے‘ اس کو ملاحظھ کیا جائے‘ تاھم نامناسب نھ ھوگا کھ اس مضمون سے اس سلسلھ کا ایک ضروری اقتباس ذیل میں بھی نقل کردیا جائے‘ چنانچھ حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلھ تحریر فرماتے ھیں:
”…اس فلم کی کھانی چار مصری ناول نگاروں توفیق الحکیم‘ محمد علی ماھر‘ عبدالحمید جودا اور عبدالرحمن شرقاوی نے لکھی ھے‘ امریکا میں مقیم ایک شامی کمیونسٹ مصطفی العقاد اس کا ھدایت کار ھے‘ اور برطانیھ‘ اٹلی میکسیکو‘ ھنگری‘ یونان اور یورپ کے دوسرے بھت سے اداکار اس میں کام کررھے ھیں‘ روس‘ اسرائیل اور بھارت اس کی تیاری میں بڑی دلچسپی لے رھے ھیں‘ اور ایک اسرائیلی رقاصھ نے اس کے لئے اپنے رقص کی ”خدمات“ پیش کی ھیں‘ برطانیھ کی مس ڈالٹن نے اس فلم کے اداکاروں کے لئے ملبوسات تیار کئے ھیں‘ میکسیکو کا ایک فلم ایکٹر انتھونی کوئن اس میں آنحضرت صلی اللھ علیھ وسلم کے مقدس چچا اور سید الشھداء حضرت حمزھ رضی اللھ عنھ کا کردار ادا کررھا ھے‘ اور جن صحابھ کرام کے بارے میں اب تک یھ معلوم ھوسکا ھے کھ ان کا کردار فلم میں پیش کیا گیا ھے‘ ان میں حضرت جعفر طیار‘ حضرت ابو سفیان اور حضرت ھندھ شامل ھیں۔ فالی اللّٰھ المشتکی وانا للّٰھ وانا الیھ راجعون۔
معلوم ھوا ھے کھ شروع میں تو مراکش‘ لیبیا‘ کویت اور بحرین نے مل کر اس فلم کی تیاری کے لئے مالی امداد فراھم کی تھی‘ لیکن جب مسلمانوں کی طرف سے اس پر شدید احتجاج ھوا‘ تو لیبیا کے سوا باقی تمام حکومتوں نے اس کی مالی اعانت سے ھاتھ کھینچ لئے‘ مگر لیبیا کی حکومت بڑی تن دھی کے ساتھ نھ صرف مالی امداد کررھی ھے‘ بلکھ اس نے مراکش کے انکار کے بعد فلم کی شوٹنگ کے لئے طرابلس کا علاقھ بھی پیش کردیا ھے‘ جھاں یھ فلم تیزی کے ساتھ تکمیل کے مراحل طے کررھی ھے۔ عالم اسلام کے تمام معروف دینی و علمی حلقوں نے اس فلم کی تیاری پر شدید احتجاج کیا ھے‘ مصر کے شیخ الازھر‘ مجمع البحوث الاسلامیھ‘ مدینھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر شیخ عبدالعزیز بن باز اور رابطھ عالم اسلامی کے جنرل سیکریٹری شیخ صالح القزاز کے بیانات اس سلسلے میں شائع ھوچکے ھیں‘ پاکستان کے ممتاز اھل علم نے بھی اس پر سخت احتجاج کیا ھے…“ (ماھنامھ ”وفاق المدارس“ ملتان‘ ذوالحجھ ۱۴۲۶ھ)
واللھ یقول الحق وھو یھدی السبیل
وصلی اللھ تعالیٰ علی خیر خلقھ سیدنا محمد وآلھ واصحابھ اجمعین
نوٹ: مدیر بینات ایک حادثھ میں شدید زخمی ھیں‘ وھ لکھنے پڑھنے سے معذور اور صاحبِ فراش ھیں۔ بینات کے باتوفیق قارئین سے ان کی صحت یابی کے لئے دعا کی اپیل کی جاتی ھے۔ (ادارھ)
فلم دی میسجThe Message
الحمدللھ وسلام علی عبادھ الذین اصطفی!
”جیو “ٹی وی کی جانب سے نشر کردھ توھین رسالت پر مشتمل فلم ”دی میسج“ کی آمدنی سے زلزلھ زدگان کی امداد کے حوالھ سے مدیر”بینات“کو روزنامھ ”جنگ“ کے ایک قاری کاسوالیھ خط موصول ھوا‘ مدیر” بینات“ کے مرض کی وجھ سے وھ خط اور مدیر ”بینات“ کے جواب کواس ماھ کے ” بصائر و عبر“ میں افادئھ عام کے لئے شائع کیا جارھا ھے۔
سوال:… بلا تمھید عرض ھے کھ رمضان المبارک ۱۴۲۶ھ کے مقدس مھینے میں مملکت پاکستان کو زلزلے کی تباھ کاریوں کی بدولت شدید نقصان پھنچا‘ اس مشکل گھڑی کا مقابلھ کرنے کے لئے ملک کی دینی و سیاسی تنظیمیں‘ رفاھی ادارے اور حکومت پاکستان بھی زلزلھ زدگان کی مدد کے لئے کمربستھ ھوگئیں‘ کیبل کے ذریعے نشریات پیش کرنے والا ایک نجی (پرائیویٹ) چینل جیو ٹیلی ویژن نے بھی اس سلسلے میں اپنی سرگرمیاں تیز کردیں‘ ان ھی دنوں جیو ٹیلی ویژن سے ایک فلم‘ جس کا نام ”دی میسج“ (The Message) ھے‘ کی جھلکیاں بار بار دکھائی جانے لگیں اور اس فلم کے اشتھارات پاکستان کے سب سے بڑے اردو روزنامھ جنگ میں بھی شائع ھونے لگے‘ جیو ٹیلی ویژن یھ بات بھی نشر کررھا تھا کھ اس فلم سے ھونے والی آمدنی سے زلزلھ زدگان کی مدد کی جائے گی‘ لیکن یھ بات نھیں بتائی گئی کھ فلم دیکھنے سے کس طرح آمدنی ھوگی اور کس طرح زلزلھ زدگان کی مدد کی جاسکے گی؟
مولانا صاحب! جس شخص نے یھ فلم بنائی ھے‘ اس کا کھنا ھے کھ یھ فلم اسلام کو سمجھنے میں معاون ثابت ھوگی‘ غیرمسلموں کے سامنے اسلام کو صحیح طور پر پیش کیا جاسکے گا‘ یھ فلم دیکھنے سے ایمان تازھ اور مضبوط ھوگا۔ (نعوذباللھ)
فلم کے ڈائریکٹر کا کھنا ھے کھ یھ فلم حقیقی واقعات پر مبنی ھے‘ اس کی تیاری کے لئے جامعھ الازھر کے مفکرین اور اسکالروں کی مدد حاصل کی گئی ھے‘ یھ فلم انگریزی زبان میں بھی نشر کی گئی اور اردو ترجمے کے ساتھ بھی نشر کی جارھی ھے‘ جس وقت میں یھ سطور قلم بند کررھا ھوں‘ اس وقت تک اس فلم کو تین مرتبھ چلایا جاچکا ھے‘ جیو ٹیلی ویژن اس فلم کا بھت چرچا کررھا ھے اور ایسے پروگرام بھی نشر کررھا ھے‘ جس میں اس فلم سے متعلق تعریفیں کی جارھی ھیں۔ الحمدللھ! میں نے پوری فلم تو نھیں دیکھی‘ لیکن چند جھلکیاں دیکھی ھیں‘ جو آپ کی خدمت میں پیش ھیں:
فلم میں نھ صرف اسلام سے قبل زمانھ جاھلیت کے دور کی منظر کشی کی گئی ھے‘ بلکھ بڑے بڑے صحابھ کرام رضی اللھ عنھم‘ مثلاً: حضرت بلال رضی اللھ عنھ اور دیگر مقدس ھستیوں کا مختلف اداکاروں نے باقاعدھ کردار ادا کیا ھے‘ معاذاللھ‘ حضرت بلال رضی اللھ عنھ کا اذان دینا‘ ان پر کافروں کی جانب سے سختیاں کیا جانا‘ وغیرھ‘ فلم بند کیا گیا ھے‘ نعوذباللھ‘ حتی کھ حضور پُرنور صلی اللھ علیھ وسلم کی ذاتِ مقدسھ کا بھی کسی ملعون اداکار نے کردار ادا کیا ھے‘ نعوذباللھ‘ فلم میں اس آدمی کا چھرھ تو واضح نھیں ھے‘ لیکن اسے چلتے پھرتے دکھایا گیا ھے۔
یھ الفاظ لکھتے ھوئے میرے ھاتھ کانپ رھے ھیں‘ حضور صلی اللھ علیھ وسلم کی مدینھ شریف ھجرت کے واقعھ کی نعوذباللھ منظر کشی کی گئی ھے‘ دکھایا گیا ھے کھ دف بجائے جارھے ھیں‘ لوگ انتظار میں کھڑے ھیں‘ ایک شخص جس کا چھرھ واضح نھیں ھے‘ سفید اونٹ پر سوار آرھا ھے (نعوذباللھ ‘استغفراللھ)۔
فلم کی ایک اور جھلکی میں دکھایا گیا ھے کھ بت رکھے ھوئے ھیں‘ ایک شخص چھڑی کی مدد سے بتوں کو گراکر توڑ رھا ھے‘ معاذاللھ‘ میرے جان پھچان کے لوگوں میں سے جنھوں نے فلم دیکھی ھے‘ ان کا کھنا ھے کھ حضور صلی اللھ علیھ وسلم کی زندگی کے اوپر فلم بنائی گئی ھے‘ حضور صلی اللھ علیھ وسلم کا مدینے ھجرت کرجانے کے دوران غار میں سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللھ عنھ کے ھمراھ قیام کرنا‘ غار کے منھ پر مکڑی کا جالا بننا‘ کبوتر کا انڈے دینا‘ مدینھ منورھ میں مسجد نبوی کی تعمیر‘ حضور صلی اللھ علیھ وسلم کا اینٹیں اٹھا اٹھا کر لانا‘ حضرت ابو ایوب انصاری کے گھر قیام کرنا وغیرھ‘ باقاعدھ ڈائیلاگ کے ساتھ فلمایا گیا ھے۔ نعوذباللھ۔
مولانا صاحب! مندرجھ بالا باتیں لکھنے کی مجھ میں سکت نھیں تھی‘ لیکن لوگ اس انداز میں یھ فلم دیکھ رھے ھیں کھ جیسے اس میں کچھ ھے ھی نھیں‘ میڈیا کے ذریعے یھ بات پھیلائی جارھی ھے کھ یھ فلم حقیقی واقعات پر مبنی ھے‘ لوگوں کے اندر یھ زھر تیزی سے سرایت کررھا ھے اور انھیں کچھ خبر ھی نھیں ھے ‘ آپ کے علم میں یھ بات لانا ناگزیر ھوگیا تھا‘ اس لئے بار بار توبھ کرنے کے بعد لکھنا شروع کیا‘ یھ سطور لکھتے ھوئے بھی توبھ کررھا ھوں‘ دل خون کے آنسو رو رھا ھے‘ ھاتھ کپکپارھے ھیں‘ جسم پر لرزھ طاری ھے‘ ھائے! ان مسلمانوں کا کیا ھوگا؟ جو اتنی بڑی توھین برداشت کررھے ھیں؟ توھین رسالت کو توھین نھیں سمجھ رھے؟
مجھے ابتدا رمضان ھی میں (جب فلم کی نمائش شروع کی گئی تھی) ان خرافات کا علم بذریعھ جھلکیاں ھوگیا تھا‘ لیکن میں یھ باتیں لکھتے ھوئے ڈررھا تھا‘ کانپ رھا تھا‘ ھمت نھیں ھورھی تھی‘ کھ کھیں ایسا لکھنا بھی توھین رسالت میں شامل نھ ھوجائے (یااللھ! مجھے معاف فرما) جب یھ زھر مسلسل گھولا جانے لگا‘ تو مجبوراً قلم اٹھایا۔
جیو ٹیلی ویژن نے اسی پر بس نھیں کیا‘ بلکھ افطار کے وقت جیو ٹیلی ویژن پر دکھائی جانے والی اذان میں بھی اس فلم کے چند مناظر دکھائے گئے‘ یھ خرافات اس تیزی سے پھیل رھی ھیں کھ جن لوگوں نے یھ فلم یا اس فلم کا کچھ حصھ دیکھا ھے‘ وھ اس کو بُرا سمجھنے پر بھی تیار نھیں ھیں‘ اگر سمجھاؤ‘ تو کھتے ھیں: ”اس میں تو سچے مناظر دکھائے گئے ھیں۔“ بعض کا کھنا ھے کھ : ”اگر کسی کو پڑھنا نھ آتا ھو‘ تو وھ دیکھ کر ھی اسلام کے ابتدائی حالات و واقعات کا مطالعھ کرسکتا ھے۔“ کچھ کا کھنا ھے کھ: ”بے شک اس فلم میں سیّدنا ابوبکرصدیق‘ ابو سفیان‘ حضرت بلال‘ حضرت ابو ایوب انصاری اور دیگر اکابر صحابھ رضی اللھ تعالیٰ عنھم کا کردار ادا کیا گیا ھے‘ لیکن حضور صلی اللھ علیھ وسلم کو کھیں بھی بولتے ھوئے نھیں دکھایا گیا اور نھ ھی واضح شکل دکھائی گئی ھے۔“ گویا ان لوگوں کے نزدیک اس فلم میں کوئی قابل ممانعت بات ھی نھیں پائی جاتی‘ اس طرح کی باتیں مسلمانوں‘ بلکھ اپنے حلقھ احباب کی زبانوں سے سن کر کلیجھ جیسے پھٹ رھا ھے‘ سینھ غم کے مارے چاک ھوا جارھا ھے‘ اے کاش! کھ زمین شق ھوجاتی اور میں اس میں سماجاتا‘ کاش! ایسی فلم میری زندگی میں نھ بنتی۔
پھلے تو مغربی ممالک کے عیسائی حضرات نے حضرت عیسیٰ علیھ السلام پر اور یھودیوں نے حضرت موسیٰ علیھ السلام کی زندگی پر فلم بنانے کی ناپاک جسارت کی تھی‘ لیکن اب تو جامعھ الازھر کی مدد سے ایک نام نھاد مسلمان نے بھی ایسا کر ڈالا‘ افسوس ھے! ان ناسمجھ مسلمانوں پر‘ جو اس فلم کی تشھیر کے لئے کام کررھے ھیں اور جو یھ فلم دیکھ رھے ھیں۔
مولانا صاحب! اب میں چند باتیں دریافت کرنا چاھتا ھوں‘ خدارا جلد از جلد جواب عنایت فرمایئے‘ تاکھ میں اپنے مسلمان بھائیوں (جو جیو ٹیلی ویژن کے خطرناک جال میں دانستھ یا نادانستھ پھنس گئے ھیں اور اس ٹی وی چینل کے مکرو فریب میں آکر اس فلم کے بنانے والوں اور دیکھنے والوں کو صحیح سمجھ رھے ھیں) کے سامنے آپ کا جواب بطور دلیل پیش کرسکوں۔
#… جن لوگوں نے یھ فلم بنائی ھے‘ جامعھ الازھر کے اسکالرز جنھوں نے اسے پاس کیا ھے‘ جن لوگوں نے اس فلم میں کردار ادا کیا ھے‘ فلم دیکھی ھے‘ نشر کی ھے‘ نشر کرنے میں معاونت کی ھے‘ یا اس فلم کے حق میں دلائل دے کر لوگوں کو بھکایا ھے‘ ان کے متعلق قرآن و سنت اور فقھ حنفی کی روشنی میں کیا حکم ھے؟
#… پاکستان کا سب سے بڑا اردو اخبار ”جنگ “بھی اس فلم کے اشتھارات وغیرھ چھاپ کر اس فلم کی خوب تشھیر کررھا ھے‘ اس کے متعلق کیا حکم ھے؟ کیا یھ گمراھی پھیلانے میں معاونت کرنا نھیں ھے؟
#… موجودھ صورت حال میں جنگ اخبار پڑھنا شرعاً کیسا ھے؟
#… اگر کسی نے یھ فلم یا اس کا کچھ حصھ دیکھ لیا ھو‘ لیکن اب توبھ کرنا چاھتا ھو‘ تو اس کا کیا طریقھ ھے؟ کیا کفارھ ھے؟
#… بحیثیت مسلمان ھمیں اس فلم کے خلاف کس طرح کے عملی اقدامات کرنے چاھئیں؟
#… اگر کسی شخص کو یھ فلم دیکھنے سے روکا جائے اور وھ تجسّس میں آکر خدا نخواستھ یھ فلم دیکھ لے‘ تو کیا اس کا گناھ اس شخص پر بھی ھوگا‘ جس نے اُسے یھ مکروھ فلم دیکھنے سے روکا تھا؟ میں اور میرے بھائی وغیرھ اسی خیال کی وجھ سے اس فلم کا تذکرھ کرنے سے بھی ڈر رھے ھیں‘ کیونکھ اگر کسی سے کھا جائے تو وھ اس فلم کے حق میں طرح طرح کی تاویلات پیش کررھے ھیں۔
مولانا صاحب! براھ مھربانی جلد از جلد جواب عنایت فرمایئے۔ اللھ تعالیٰ مجھے اور تمام مسلمانوں کو قوت کے ساتھ ان خرافات کا مقابلھ کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘ ھم سب کے ایمان کی حفاظت فرمائے‘ میری دعا ھے کھ اللھ تعالیٰ مجھے‘ آپ کو اور تمام مسلمانوں کو سرکار دو عالم صلی اللھ علیھ وسلم کی غلامی کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور حضور صلی اللھ علیھ وسلم اور صحابھ کرام رضی اللھ عنھم کی غلامی میں ھی خاتمھ فرمائے‘ اللھ تعالیٰ علمائے اھلِ حق‘ علمائے اھل سنت والجماعت کی حفاظت فرمائے‘ ھمیں صراطِ مستقیم پر چلنے اور علمائے اھل سنت سے قدم قدم پر رھنمائی لینے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔
حمزھ علی‘ کراچی
جواب:… جذبات سے لبریز آپ کا خط پڑھ کر ایمان تازھ ھوگیا‘ افسوس! کھ آپ کا رمضان کا لکھا ھوا خط مجھے ادارھ جنگ میں کام کرنے والے کرم فرماؤں کی مھربانی سے آج ۲۰/ ربیع الثانی ۱۴۲۷ھ کو ملا ھے‘ گویا پورے آٹھ ماھ بعد یھ خط ملا ھے اور اس وقت سے اب تک حالات کیا سے کیا ھوگئے ھیں؟ میں رمضان المبارک میں بیرون ملک تھا‘ واپسی پر مجھے کسی نے نھیں بتلایا‘ ورنھ بحیثیت ایک گناھ گار مسلمان‘ میں بھی اس پر احتجاج کرتا‘ میں نے لکھ تو دیا کھ اس پر احتجاج کرتا‘ مگر سمجھ نھیں آتا کھ اس شرمناک فلم پر اپنے کرب و الم کا اظھار کن الفاظ میں کروں؟ اور اس داستانِ درد و الم کو کن الفاظ کا پیرایھ پھناؤں؟ کراچی جیسا شھر جس میں کم و بیش ڈیڑھ کروڑ کلمھ گو مسلمان آباد ھیں‘ انھوں نے یھ کیسے برداشت کرلیا کھ ان کے مقدس نبی اور رشک ملائک صحابھ کرام کو فلمانے کی ناپاک جسارت کی گئی‘ اور ان نام نھاد مسلمانوں نے ٹھنڈے پیٹوں دنیا جھان کے اوباشوں کو نبی امی اور صحابھ کرام کے روپ میں دیکھنے کی ھمت بھی کرلی؟ اور وھ بھی رمضان جیسے مقدس ماھ میں!! اے اللھ! ھمارے اس جرم کو معاف فرما۔
بلاشبھ اس ذاتِ الٰھی کا حلم و تحمل تھا‘ ورنھ اس جرأت و گستاخی پر آسمان کو حق تھا کھ آگ برساتا اور زمین زندھ انسانوں کو نگل جاتی۔
یھ فلم بنانا‘ اس کے جواز کا فتویٰ دینا‘ اس کو نشر کرنا‘ اس کی اشاعت میں مدد کرنا‘ اس کے جواز اور مفید ھونے کے دلائل دینا‘ اس کو دیکھنا‘ لوگوں کو اس کے دیکھنے کی طرف راغب کرنا اور بھکانا‘ سب حرام و ناجائز ھے۔ اس فلم کو بنانے والا مصطفی عکاظ کوئی مسلمان نھیں تھا‘ بلکھ ایک لادین مستشرق تھا اور غالباً اس نے اپنے آقاؤں کے اشارھ پر توھینِ رسالت و توھینِ صحابھ پر مبنی یھ بدنام زمانھ فلم بنائی اور مسلمانوں کی مقدس شخصیات کو دنیا جھان کے کنجروں اور بدمعاشوں کی شکل میں دکھا کر مسلمانوں کے ایمان و عمل کو غارت کرنے اور ان مقدس شخصیات کی توھین و تنقیص کرنے کی کوشش کی۔ کیا کوئی سوچ سکتا ھے کھ فلم انڈسٹری کے کسی حیا باختھ انسان کو حضرت حمزھ، حضرت بلال، حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت خدیجھ کا نام د یا جائے؟ اس سے بڑھ کر یھ کھ کیا کسی مسلمان کا ایمان گوارا کرسکتا ھے کھ کسی کافر‘ مشرک‘ ملحد اور بے دین کو حضرت محمد مصطفی صلی اللھ علیھ وسلم کے طور پر پیش کیا جائے؟ اے کاش کھ جو کام آج تک اسلام کے ازلی دشمن نھیں کرسکے تھے ‘ وھ اب مسلمانوں کے ھاتھوں‘ مسلمانوں کے ملک میں اور مسلمانوں کے سامنے کیا جارھا ھے‘ اور طرفھ تماشایھ کھ اس کو اشاعتِ اسلام کا نام دے کر اسے دیکھنا ‘دکھانا اور اس کی نشرو اشاعت کو نیکی کا نام دیا جارھا ھے: چوں کفر از کعبھ برخیزد کجا ماند مسلمانی!
اس فلم کی نشرواشاعت کے سلسلے میں روزنامھ جنگ اور جیو ٹی وی کا یھ عمل سراسر غلط‘ ناجائز‘ لائقِ صد نفرت اور گستاخانھ ھے‘ مسلمانوں کو چاھئے کھ اس اسلام دشمن فلم اور توھینِ رسالت کی عالمی سازش کے خلاف بھرپور احتجاج کریں اور ٹی وی واخبارات کو ان کی اس اسلام دشمن گستاخانھ پالیسی سے باز آجانے پر مجبور کردیں۔
عام لوگوں کو نھایت سلیقھ سے اس بدترین فلم اور گھاؤنی سازش کے دیکھنے سے روکا جائے اور انھیں باور کرایا جائے کھ آقائے دو عالم صلی اللھ علیھ وسلم کی شبیھ بنانا‘ دیکھنا اور دکھانا سب ناجائز‘ حرام اور توھینِ رسالت کے زمرے میں آتا ھے‘ اسی طرح ان پر واضح کیا جائے کھ اگر ایک شریف انسان اپنے ماں‘ باپ‘ استاذ‘ شیخ یا اپنی کسی برگزیدھ شخصیت کو قابل اعتراض‘ نیم عریاں حالت میں اور کسی حیا باختھ انسان کے کردار میں دیکھنا گوارا نھیں کرسکتا‘ تو وھ اپنے محبوب از دل و جان اور سرور دو جھاں صلی اللھ علیھ وسلم ‘ حضرات صحابھ کرام جیسی مقدس شخصیات کو فلم کی اسکرین پر اور وھ بھی نھایت قابل اعتراض حالت میں دیکھنا کیونکر گوارا کرسکتا ھے؟
پھر جیسا کھ دوسرے ذرائع سے معلوم ھوا کھ حضرات صحابھ کرام کا کردار ادا کرنے والے ان غیرمسلموں کو فلم اسکرین پر آنحضرت صلی اللھ علیھ وسلم سے سخت کلامی اور تند و تیز لھجھ میں بات کرتے ھوئے بھی دکھایا گیا ھے‘ جس کا تکلیف دھ اور قابل اعتراض پھلو یھ ھے کھ گویا نعوذباللھ! حضرات صحابھ کرام ، حضور صلی اللھ علیھ وسلم کے ادب ناآشنا اور گستاخ تھے‘ اس سے جھاں اسلامی تعلیمات کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی ھے‘ وھاں حضرات صحابھ کرام کے رشک ملائک کردار کو بھی داغ دار کرنے کی ناپاک سعی کی گئی ھے‘ اس سے مسلمانوں کی نئی نسل پر جھاں منفی اثرات مرتب ھوں گے ‘وھاں وھ صحابھ کرام کے بارھ میں جو تاثر قائم کریں گے‘ وھ کسی سے پوشیدھ نھیں‘ الغرض گستاخی پر توبھ و استغفار کرنا چاھئے۔
اگر روزنامھ جنگ یا دوسرا کوئی اخبار باوجود تنبیھ کے اس بدترین کردار سے باز نھ آئے‘ تو اُسے اس حرکت سے باز رکھنے یا سبق سکھانے کے لئے‘ احتجاجاً اس کا بائیکاٹ کیا جائے‘ کیونکھ آخری درجھ میں ھم اتنا ھی کرسکتے ھیں۔
جن لوگوں نے اس فلم کو صحیح جان کر دیکھا ھے‘ ان کو بارگاھ الٰھی میں اس سے توبھ کرنا چاھئے۔ اس فلم کے سلسلھ میں مزید تفصیل درکار ھو تو حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلھ کا ایک مضمون ماھنامھ ”وفاق المدارس“ ملتان دسمبر ۲۰۰۵ء میں شائع ھوچکا ھے‘ اس کو ملاحظھ کیا جائے‘ تاھم نامناسب نھ ھوگا کھ اس مضمون سے اس سلسلھ کا ایک ضروری اقتباس ذیل میں بھی نقل کردیا جائے‘ چنانچھ حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلھ تحریر فرماتے ھیں:
”…اس فلم کی کھانی چار مصری ناول نگاروں توفیق الحکیم‘ محمد علی ماھر‘ عبدالحمید جودا اور عبدالرحمن شرقاوی نے لکھی ھے‘ امریکا میں مقیم ایک شامی کمیونسٹ مصطفی العقاد اس کا ھدایت کار ھے‘ اور برطانیھ‘ اٹلی میکسیکو‘ ھنگری‘ یونان اور یورپ کے دوسرے بھت سے اداکار اس میں کام کررھے ھیں‘ روس‘ اسرائیل اور بھارت اس کی تیاری میں بڑی دلچسپی لے رھے ھیں‘ اور ایک اسرائیلی رقاصھ نے اس کے لئے اپنے رقص کی ”خدمات“ پیش کی ھیں‘ برطانیھ کی مس ڈالٹن نے اس فلم کے اداکاروں کے لئے ملبوسات تیار کئے ھیں‘ میکسیکو کا ایک فلم ایکٹر انتھونی کوئن اس میں آنحضرت صلی اللھ علیھ وسلم کے مقدس چچا اور سید الشھداء حضرت حمزھ رضی اللھ عنھ کا کردار ادا کررھا ھے‘ اور جن صحابھ کرام کے بارے میں اب تک یھ معلوم ھوسکا ھے کھ ان کا کردار فلم میں پیش کیا گیا ھے‘ ان میں حضرت جعفر طیار‘ حضرت ابو سفیان اور حضرت ھندھ شامل ھیں۔ فالی اللّٰھ المشتکی وانا للّٰھ وانا الیھ راجعون۔
معلوم ھوا ھے کھ شروع میں تو مراکش‘ لیبیا‘ کویت اور بحرین نے مل کر اس فلم کی تیاری کے لئے مالی امداد فراھم کی تھی‘ لیکن جب مسلمانوں کی طرف سے اس پر شدید احتجاج ھوا‘ تو لیبیا کے سوا باقی تمام حکومتوں نے اس کی مالی اعانت سے ھاتھ کھینچ لئے‘ مگر لیبیا کی حکومت بڑی تن دھی کے ساتھ نھ صرف مالی امداد کررھی ھے‘ بلکھ اس نے مراکش کے انکار کے بعد فلم کی شوٹنگ کے لئے طرابلس کا علاقھ بھی پیش کردیا ھے‘ جھاں یھ فلم تیزی کے ساتھ تکمیل کے مراحل طے کررھی ھے۔ عالم اسلام کے تمام معروف دینی و علمی حلقوں نے اس فلم کی تیاری پر شدید احتجاج کیا ھے‘ مصر کے شیخ الازھر‘ مجمع البحوث الاسلامیھ‘ مدینھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر شیخ عبدالعزیز بن باز اور رابطھ عالم اسلامی کے جنرل سیکریٹری شیخ صالح القزاز کے بیانات اس سلسلے میں شائع ھوچکے ھیں‘ پاکستان کے ممتاز اھل علم نے بھی اس پر سخت احتجاج کیا ھے…“ (ماھنامھ ”وفاق المدارس“ ملتان‘ ذوالحجھ ۱۴۲۶ھ)
واللھ یقول الحق وھو یھدی السبیل
وصلی اللھ تعالیٰ علی خیر خلقھ سیدنا محمد وآلھ واصحابھ اجمعین
نوٹ: مدیر بینات ایک حادثھ میں شدید زخمی ھیں‘ وھ لکھنے پڑھنے سے معذور اور صاحبِ فراش ھیں۔ بینات کے باتوفیق قارئین سے ان کی صحت یابی کے لئے دعا کی اپیل کی جاتی ھے۔ (ادارھ)
No comments:
Post a Comment
Plz turn of your sound volume bcoz there is music behind this video