Mar 4, 2009

حجاب احادیث کی روشنی میں

مسزنسرین جبین
حجاب احادیث کی روشنی میں

یھاں سب سے پھلے وھ احادیث پاک ذکر کی جاتی ھیں‘ جن سے ھمیں معلوم ھوگا کھ صحابیات کس قدر پردھ کا اھتمام کرتی تھیں اور پردھ کے معاملے میں ان کے ھاں کوئی کوتاھی نھ تھی‘ وھ ھرعام وخاص اور اجنبی شخص سے حتی کھ حضور اقدس ا سے بھی پردھ کرتی تھیں اور اس میں اس قدر اھتمام ھوتا تھا کھ تمام بدن مع چھرھ کے چھپاتی تھیں۔
صحابیات کا حضورا سے پردھ
احکامِ حجاب کے نزول کے بعد صحابیات پردھ کا بھت اھتمام کرتی تھیں‘ حتی کھ حضورا سے بھی پردھ کرتی تھیں اور بے حجاب آپ ا کے سامنے بھی نھیں آتی تھیں‘ کوئی مسئلھ پوچھنا ھوتا یا کوئی چیز دینی لینی ھوتی تب بھی پردھ کے پیچھے ھی سے بات کرتی تھیں‘ چنانچھ ایک طویل حدیث کے ذیل میں حضرت عائشھ بیان کرتی ھیں کھ:
”عن عائشھ  نھی اللھ عنھا قالت او مأت امراء ة من وراء ستر بیدھا کتاب الی رسول اللھا‘ فقبض النبی ا یدھ‘ فقال ما ادری اید رجل ام ید امرأة؟ قالت بل ید امرأة۔ قال: لو کنت امرأة لغیرت اظفارک یعنی بالحناء“۔ (ابوداؤد:ص:۵۷۴‘ ج:۲)
ترجمھ:-ایک عورت کے ھاتھ میں پرچھ تھا اس نے پرچھ دینے کے لئے پردھ کے پیچھے سے آنحضرت ا کی طرف ھاتھ بڑھایا‘ آپ ا نے ھاتھ روک لیا اور فرمایا کھ: نھ معلوم مرد کا ھاتھ ھے یا عورت کا؟ اس نے کھا کھ یھ عورت کا ھاتھ ھے۔ آپ ا نے ارشاد فرمایا: اگر تم عورت ھوتیں تو اپنے ناخنوں پر مھندی لگاتیں۔
فائدھ
یھ حدیث واضح طور پر اس بات کی دلیل ھے کھ صحابیات آنحضرت ا سے بھی پردھ کرتی تھیں‘ اس لئے اس عورت نے پردھ کے پیچھے سے پرچھ دینے کے لئے ھاتھ بڑھایا۔ اگر بے پردھ سامنے آنے کی اجازت ھوتی تو پردھ کی کیا ضرورت تھی‘ نیز اگر پردھ جو اس عورت نے کیا ھوا تھا شریعت کے خلاف ھوتا تو حضور ا اسے ضرور ٹوکتے کھ اس کی حرکت آگے چل کر بڑی گمراھی کا ذریعھ بن سکتی ھے۔
ازواج مطھرات کا صحابھ کرام سے پردھ
حضرات صحابیات  پردھ کا بھت اھتمام کرتی تھیں‘ حتی کھ آنحضرت ا سے بھی پردھ کرتیں تھیں‘ اس طرح ازواج مطھرات بھی باوجود اس کے کھ وھ قرآنی حکم کے مطابق امت کی مائیں ھیں اور وھ امت کے ھر ھر فرد پر ھمیشھ کے لئے حرام ھیں‘ تمام صحابھ کرام  سے پردھ کرتیں تھیں‘ چنانچھ واقعھ افک کی تفصیلی حدیث میں حضرت عائشھ  کا بیان ھے:
ترجمھ:․․․”میں آنحضرت ا کے ساتھ نزول حجاب کے بعد غزوھ میں شریک ھوئی جب انھوں نے اونٹ کھڑا کیا اور اس کو لے کر چلے گئے تب میں لشکر گاھ واپس پھنچی‘ وھاں اس وقت نھ کوئی آواز لگانے والا باقی تھا اور نھ کوئی جواب دینے والا‘ سب لوگ لشکر کے ساتھ جاچکے تھے‘ میں نے اپنی چادر اوڑھ لی اور اسی جگھ لیٹ گئی‘ تھوڑی دیر بعد وھاں سے صفوان بن معطل گزرے‘ وھ اپنی کسی ضرورت کی بنا پر لشکر سے پیچھے رھ گئے تھے اور انھوں نے رات عام لوگوں کے ساتھ نھیں گزاری تھی‘ انھوں نے میرا ھیولھ دیکھا تو پھچان گئے‘ انھوں نے مجھے نزول سے پھلے دیکھا تھا‘ انھوں نے زور سے ”انا للھ وانا الیھ راجعون“ پڑھا‘ میں ان کی آواز سن کر جاگ گئی اور فوراً چادر سے اپنا چھرھ ڈھانپ لیا۔(صحیح مسلم‘ج:۲ص:۳۶۴)
فائدھ
اس حدیث سے ازواج مطھرات کا پردھ کرنا کئی طرح سے ثابت ھوتا ھے اول تو اس واقعھ میں جو سبب حضرت عائشھ  کے جنگل میں رھ جانے کا پیش آیا تھا‘ وھ یھی تھا کھ ازواج مطھرات کا پردھ صرف برقع یا چادر ھی کا نھیں تھا‘ بلکھ سفر میں بھی اپنے ھودج (کجاوھ) میں رھتی تھیں یھ ھودج کمرے کی طرح ھوتاتھا جو پورا کا پورا اونٹ کے اوپر رکھ دیا جاتا تھا اور اس طرح اتار دیا جاتا تھا‘ ھودج مسافر کے مکان کی طرح ھوتا ھے۔ جب قافلھ چلنے لگا تو حسبِ عادت خادموں نے ھودج کو یھ سمجھ کر اونٹ پر سوار کردیا کھ ام المؤمنین اس کے اندر موجود ھیں‘ حالانکھ وھ اس کے اندر موجود نھیں تھیں‘ بلکھ طبعی ضرورت کے لئے باھر گئی ھوئی تھیں‘ اس مغالطھ میں قافلھ روانھ ھوگیا اور ام المؤمنین جنگل میں تنھا رھ گئیں‘ خدام اندر جھانک کر اس لئے نھیں دیکھ سکتے تھے کھ نزول حجاب کے بعد ایسا کرنا ممکن نھ رھا تھا۔ یھ واقعھ اس بات کا بھی قوی شاھد ھے کھ حضور ا کے زمانھ میں عورتیں بالعموم اپنے گھروں میں رھا کرتی تھیں اور خود سفر میں بھی ھودج کا اھتمام کرتی تھیں جو عارضی طور پر چار دیواری کا کام دیتا تھا پھر حضرت عائشھ صدیقھ  فرماتی ھیں کھ ضرورت سے فارغ ھوکر جنگل سے واپس آکر جب میں نے دیکھا کھ قافلھ چلا گیا تو میں بیٹھ گئی‘ یھ سوچ کر کھ جب حضورا کو پتھ چلے گا تو میری تلاش میں واپس تشریف لائیں گے‘ نیند کا غلبھ ایسا ھوا کھ وھیں پڑ کر سوگئی‘ صبح کو حضرت صفوان بن معطل وھاں سے گزرے تو دور سے کسی کو پڑا دیکھ کر ادھر آئے تو وھ مجھے دیکھتے ھی پھچان گئے‘ کیونکھ حجاب کے حکم سے پھلے وھ مجھے دیکھ چکے تھے‘ مجھے پھچان کر انھوں نے” انا للھ وانا الیھ راجعون“ پڑھا تو ان کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی اور میں نے اپنی چادر سے اپنا منھ ڈھانک لیا۔ اب اس حدیث میں حضرت عائشھ کا یھ فرمانا کھ انھوں نے مجھے نزول حجاب سے پھلے دیکھا تھا‘ خود بتارھاھے کھ نزولِ حجاب کے بعد کسی بھی غیر شخص کے لئے ام المؤمنین کو دیکھنا ممکن نھ رھا تھا۔ پھر یھاں بھی حضرت عائشھ  نے حضرت صفوان کو دیکھ کر فوراً ھی چادر سے منھ کو چھپا لیا تھا‘ جس سے معلوم ھوا کھ آپ پردھ کا بھت اھتمام کرتی تھیں اور یھ کھ پردھ میں خود چھرھ چھپانا بھی لازمی ھے‘ ورنھ حضرت عائشھ محض چادر اوڑھ لینے پر اکتفاء کرلے تیں۔ ازواج مطھرات کے مسلمانوں کی ماں ھونے کے باوجود امت سے پردھ کا اھتمام حضرت صفیھ  کے نکاح کے واقعھ سے بھی معلوم ھوتاھے‘ چنانچھ حضرت انس سے روایت ھے کھ سید عالم ا نے تین روز خیبر اور مدینھ کے درمیان قیام فرمایا‘ تینوں دن حضرت صفیھ نے آپ کے ساتھ شب باشی کی‘ اور وھیں جنگل میں ولیمھ ھوا‘ ولیمھ میں گوشت روٹی نھیں تھی‘ بلکھ متفرق قسم کی دوسری چیزیں تھیں‘ آنحضرت ا نے چمڑے کا دسترخوان بچھانے کا حکم دیا‘ جس پر کجھوریں‘ پنیر اور گھی لاکر رکھ دیا گیا‘ بعد میں لوگوں کو بلایا گیا اور لوگوں نے ولیمھ کی دعوت کھائی (پورے لشکر میں سے جن کو علم نھ ھوا تھا وھ) لوگ اس تردد میں رھے کھ حضرت صفیھ سے آنحضرت ا نے نکاح فرمالیا‘ یا باندی بنالیا ھے‘ پھر ان لوگوں نے خود ھی فیصلھ کرلیا کھ آپ ا نے ان کو پردھ میں نھ رکھا تو ھم سمجھیں گے کھ آپ نے لونڈی بنالیا ھے‘ چنانچھ آپ نے جب کوچ فرمایا تو اپنی سواری پر ان کے لئے پیچھے جگھ بنائی اور ان کو سوار کرکے ان کے اور لوگوں کے درمیان پردھ تان دیا‘ اس سے سب سمجھ گئے (کھ وھ ام المومنین ھیں) (صحیح بخاری:ج:۲‘ص:۷۷۵)
اس حدیث سے واضح طور پر معلوم ھو گیا کھ حضرات صحابھ کرام میں یھ بات عام معروف تھی کھ آزاد عورت کے لئے پردھ کرنا لازم ھے اور یھ کھ اگر آنحضرت ا نے حضرت صفیھ کو پردھ میں رکھا تو وھ بیوی ھوں گی ورنھ باندی‘ اور جب ان پر پردھ کرایا گیا تو سمجھ گئے کھ یھ بیوی ھیں‘ اگر اس وقت تک پردھ کا عام رواج نھ ھو چکا ھوتا تو حضرات صحابھ کرام کے دلوں میں یھ سوال پیدا نھ ھوتا۔
بیعت کے وقت پردھ کا اھتمام
خود حضور پاک ا بھی نامحرم عورتوں سے پردھ کے احکام کا لحاظ کرتے تھے‘ آپ ا جس طرح مردوں سے بیعت لیا کرتے تھے‘ اسی طرح عورتیں بھی آپ ا سے بیعت کیا کرتی تھیں‘ مردوں کو آپ ا ھاتھ میں ھاتھ لے کر بیعت فرمایا کرتے تھے‘ مگر عورتوں کو پردے کے پیچھے سے بغیر ھاتھ میں ھاتھ لئے بیعت فرماتے تھے‘ کیونکھ غیر محرم کو جس طرح دیکھنا ناجائز ھے اسی طرح مصافحھ کرنا بھی ناجائز ھے۔
حدیث میں ھے:
”عن امیمھ بنت رقیقة  انھا قالت اتیت رسول اللھ ا فی نسوة بایعنھ علی الاسلام‘ فقلن لھ یا رسول اللھ ا! نبایعک علی ان لانشرک باللھ شیئا‘ ولانسرق‘ ولانزنی ولانقتل اولادنا‘ ولاناتی ببھتان نفتریھ بین ایدینا وارجلنا‘ ولانعصیک فی معروف۔ قال رسول اللھ ا: فیما استطعتن واطقتن قال: فقلن: اللھ ورسولھ ارحم بنا من انفسنا‘ ھلم نبایعک یا رسول اللھ! فقال رسول اللھ ا: انی لااصافح النساء‘ انما قولی لمائة امرأة کقولی لامرأة واحدة او مثل قولی لامرأة واحدة“۔
(موطأ امام مالک‘ ص:۷۳۱‘ باب ما جاء فی البیعة)
ترجمھ:- حضرت امیمھ رضی اللھ عنھا بیان کرتی ھیں کھ میں اور چند دیگر عورتیں حضورا کی خدمت میں بیعت کے لئے حاضر ھوئیں‘ عورتوں نے عرض کیا: یا رسول اللھ ا! ھم آپ ا سے ان شرطوں پر بیعت ھوتی ھیں کھ اللھ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نھیں کریں گی اور نھ چوری کریں گی اور نھ زنا کریں گی اور نھ اپنی اولاد کو قتل کریں گی اور نھ کوئی بھتان کی اولاد لائیں گی‘ جسے اپنے ھاتھوں اور پاؤں کے درمیان ڈالیں (اور اپنے شوھر کی اولاد بتائیں) اور نیک کام میں آپ کی نافرمانی نھ کریں گی‘ یھ سن کر آنحضرت ا نے فرمایا اور کھھ دو کھ ھم اپنی طاقت کے مطابق پورا عمل کریں گی‘ یھ سن کر عورتوں نے عرض کیا کھ اللھ اور اس کے رسول ھم پر اس سے زیادھ مھربان ھیں‘ جتنا ھم اپنے نفسوں پر رحم کرتے ھیں‘ اس کے بعد ان عورتوں نے عرض کیا: یا رسول اللھ ! زبانی اقرار تو ھم نے کرلیاھے لایئے (ھاتھ میں ھاتھ دے کر بھی) آپ سے بیعت کرلیں‘ یھ سن کر حضور ا نے فرمایا: میں نے عورتوں سے مصافحھ نھیں کرنا‘ جو میں نے زبان سے کھھ دیاسب کے لئے لازم ھوگیا‘ اور الگ الگ بیعت کرنے کی ضرورت بھی نھیں ھے‘ کیونکھ سب عورتوں سے بھی میرا وھی کھنا ھے جو ایک عورت سے کھنا ھے“۔
مصیبت کے وقت بھی پردھ لازم ھے
حدیث میں ھے:
”عن قیس بن شماس  قال: جاء ت امرأة الی النبی ا یقال لھا ام خلاد وھی متنقبة تسأل عن ابنھا وھو مقتول ‘ فقال لھا بعض اصحاب النبی ا جئت تسألین عن ابنک وانت متنقبة‘ فقال ان ارزأ ابنی فلن ارزأ حیائی‘ فقال رسول اللھ ا ابنک لھ اجر شھیدین قالت ولم ذاک یا رسول اللھ ! قال: لانھ قتلھ اھل الکتاب“۔ (ابوداؤد ج:۱‘ ص: ۳۳۷)
ترجمھ:․․․” حضرت قیس بن شماس کا بیان ھے کھ ایک صحابیھ جس کا نام ام خلاد تھا‘ حضور اقدس ا کی خدمت میں اپنے بیٹے کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لئے حاضر ھوئیں‘ ان کا بیٹا کسی غزوھ میں شھید ھوگیا تھا‘ وھ جب آئیں تو اپنے چھرے پر نقاب ڈالے ھوئے تھیں‘ ان کا یھ حال دیکھ کر کسی صحابی نے کھا تم اپنے بیٹے کا حال معلوم کرنے آئی ھو اور نقاب ڈالے ھوئے ھو‘ حضرت ام خلاد نے جواب دیا اگر میں بیٹے کی وجھ سے مصیبت زدھ ھوں تو اپنی شرم وحیا کھو کر ھرگز مصیبت زدھ نھ بنوں گی‘ حضرت ام خلاد کے پوچھنے پر حضورا نے جواب دیا کھ تمھارے بیٹے کے لئے دو شھیدوں کا ثواب ھے‘ انھوں نے عرض کیا یا رسول اللھ ا کیوں؟ آپ ا نے فرمایا: ”اس لئے کھ اسے اھل کتاب نے قتل کیا ھے “ ۔
اس حدیث سے جھاں یھ معلوم ھوا کھ حضرت ام خلاد نے موقع پر موجود تمام لوگوں سے جن میں حضور ا بھی شامل تھے‘ نقاب ڈال کر پردھ کیا‘ وھیں یھ بھی معلوم ھوا کھ حضرات صحابیات میں حیا کا کس قدر بلند معیار پیدا ھو چکا تھا کھ اس خاتون نے کسی بھی عورت کے لئے دنیاوی اعتبار سے سب سے بڑے صدمھ کے موقع پر بھی احکام شرع کی پوری پوری پاسداری فرمائی اور جب ایک شخص نے دیکھ کر حیرت کا اظھار کیا تو انھوں نے فرمایا کھ مجھ پر بیٹے کے جاتے رھنے کا صدمھ پڑا ھے تو اس کا مطلب یھ نھیں کھ میری حیا بھی جاتی رھی‘ گویا حیا جانے کی مصیبت بیٹے کے مرنے کی مصیبت سے کم نھیں۔ نیز اس حدیث سے یھ بھی معلوم ھوا کھ پردھ کا حکم ھرحال میں لازم ھے‘ رنج ھو یا خوشی کسی صورت میں بھی نامحرم مرد کے سامنے آنا جائز نھیں۔ بعض لوگ جو یھ گمان کرتے ھیں کھ رنج وغم اور مصیبت یا شادی ‘ بیاھ اور خوشی کے وقت انسان احکام شریعت سے مستثنیٰ رھتا ھے‘ بڑی جھالت ھے۔ اب بعض عورتوں کا جنازھ کے وقت گھر سے دروازوں پر نکل آنا‘ بلکھ بسا اوقات قبرستان تک جانا‘ یا شادی بیاھ کے وقت پردھ کا اھتمام نھ کرنا یا سفر میں پورے طور پر پردھ نھ کرنا‘ سب ناجائز کام ھیں۔ نیز اس حدیث سے یھ بھی واضح طور پر معلوم ھوگیا کھ شریعت میں چھرے کا پردھ بھی لازم ھے‘ کیونکھ اس عورت نے چھرے پر نقاب ڈال رکھی تھی۔

No comments:

Post a Comment

Plz turn of your sound volume bcoz there is music behind this video