مولانامحمد یوسف لدھیانوی شھید
تفسیر وتاویل کا مفھوم
تفسیر کے معنی ھیں کسی چیز کا کھولنا‘ ظاھر کرنا‘ بیان کرنا۔ اور اھلِ علم کی اصطلاح میں تفسیرِ قرآن کے معنی ھیں: ”قرآنِ کریم کے معانی کو بیان کرنا اور مرادِ خداوندی کی تعیین کرنا“۔
تاویل کے معنی ھیں: پھیرنا‘ لوٹانا۔ اور اھلِ علم کی اصطلاح میں تاویل سے مراد ھے: ”قرآنِ کریم کے الفاظ اور جملوں کو ان کی اصل مراد کی طرف لوٹانا“۔
تفسیر وتاویل کے الفاظ عموماً ھم معنی استعمال کئے جاتے ھیں۔ اور بعض اھلِ علم ان دونوں کے درمیان یھ فرق کرتے ھیں کھ تفسیر کا لفظ زیادھ تر مفرد الفاظ کی تشریح کے لئے استعمال ھوتا ھے‘ اور تاویل کا لفظ جملوں کا مفھوم بیان کرنے کے لئے۔
بعض حضرات فرماتے ھیں کھ جس فقرے کا مفھوم قطعی طور پر متعین ھو اور اس میں کسی دوسرے مفھوم کی گنجائش نھ ھو‘ ایسے مفھوم کو بیان کرنا تفسیر کھلاتاھے۔ اور جھاں متعدد معانی کا احتمال ھو وھاں غور فکر کے بعد ایک پھلو کو متعین کرنے کا نام ”تاویل“ ھے۔ اور بعض حضرات فرماتے ھیں کھ جو مفھوم منقول ھو‘ اس کا نام تفسیر ھے اور جو اجتھاد واستنباط سے تعلق رکھتا ھو‘ اسے تاویل کھا جائے گا۔ (مزید تفصیل کے لئے دیکھئے الاتقان نوع ۷۷) خلاصھ یھ کھ: ”علمِ تفسیر اس علم کو کھتے ھیں جس میں قرآنِ کریم کے معنی بیان کئے جائیں اور اس کے احکام اور حکمتوں کو کھول کر واضح کیا جائے“۔(معارف القرآن مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی جلد اول ص:۴۹)
ایک نازک ترین ذمھ داری
قرآنِ کریم کی تفسیر وتشریح ایک کٹھن کام اور نھایت نازک ترین ذمھ داری ھے‘ اس لئے کھ قرآنِ کریم حق تعالیٰ شانھ کا مقدس کلام ھے اور قرآنِ کریم کی تفسیر درحقیقت حق تعالیٰ شانھ کی ترجمانی کا نام ھے‘ جب ھم قرآنِ کریم کے کسی لفظ‘ کسی جملے یا کسی آیت کی تفسیر بیان کرتے ھیں تو گویا ھم دعویٰ کرتے ھیں کھ اللھ تعالیٰ کی یھی مراد ھے‘ اس طرح اپنے بیان کئے ھوئے مفھوم کو حق تعالیٰ شانھ کی طرف منسوب کرتے ھیں‘ ظاھر ھے کھ اس سلسلھ میں ذراسی لغزش اور سھل نگاری افترأ علی اللھ کا موجب ھوسکتی ھے‘ افترأ علی اللھ نھایت سنگین جرم ھے‘ حق تعالیٰ شانھ کا ارشاد ھے:
”ومن اظلم ممن افتریٰ علی اللھ کذباً او کذب باٰیاتھ‘ انھ لایفلح الظالمین“۔
ترجمھ:․․․”اور اس سے زیادھ کون بے انصاف ھوگا‘ جو اللھ تعالیٰ پر جھوٹ بھتان باندھے‘ یا اللھ تعالیٰ کی آیات کو جھوٹا بتلاوے‘ ایسے بے انصافوں کی رستگاری نھ ھوگی“۔
(ترجمھ حکیم الامت حضرت تھانوی)
سربراھانِ مملکت اور شاھانِ عالم کی ترجمانی کے فرائض ادا کرنا سب جانتے ھیں کھ کس قدر نازک ذمھ داری ھے‘ اور جو شخص اس ذمھ داری پر فائز ھو‘ اس کے لئے کیسی لیاقت ومھارت شرط ھے؟ شاھانھ رسوم وآداب اور زبان ومحاورات سے اس کا کس درجھ باخبر ھونا ضروری ھے‘ پھر ترجمانی کے فرائض ادا کرتے ھوئے اسے کس قدر حزم واحتیاط اور بیدار مغزی سے کام لینا چاھئے‘ اور پھر دانستھ ونادانستھ غلط ترجمانی پر کس قدر عتاب شاھی کا اندیشھ ھے؟ جب سلاطین دنیا کی ترجمانی اس قدر نازک کام ھے‘ تو اسی سے اندازھ کیا جاسکتا ھے کھ شھنشاہِ مطلق‘ احکم الحاکمین کی ترجمانی کا کام کس قدر مشکل اور کتنا نازک ھوگا۔
قرآنِ کریم کی تفسیر اپنے اندر نزاکت کا ایک اور پھلو بھی رکھتی ھے‘ اور وھ یھ کھ قرآنِ کریم ھی سے شاھراھ انسانیت کی نشاندھی ھوتی ھے‘ اسی سے عقائد وعبادات کی شکلیں متعین ھوتی ھیں‘ اسی سے معاملات ومعاشرت کی تشکیل ھوتی ھے‘ اسی سے حق تعالیٰ شانھ کی پسند وناپسند‘ جائز وناجائز اور حلال وحرام کی حد بندی ھوتی ھے‘ اسی سے اخلاقی قدریں وجود پذیر ھوتی ھیں‘ اسی سے انسانیت وعبدیت کے پیمانے ڈھلتے ھیں‘ اسی سے اسلام کا عالم گیر قانون وجود میں آتاھے۔ الغرض دین ومذھب‘ عقائد واعمال‘ اخلاق ومعاشرت‘ سیاست وتمدن اور عدل وانصاف کے قانونی‘ اخلاقی اور انسانی پھلوؤں کا مدار قرآنِ کریم ھے اور ظاھر ھے کھ قرآنِ کریم کی تفسیر وتشریح میں ذراسی بے احتیاطی بھی کتنے ھولناک مفاسد کا سبب بن سکتی ھے؟ اور ایسے بے احتیاط مفسر اور اس پر اعتماد کرنے والے کے حق میں شدید خطرھ ھے کھ یھ کتابِ ھدایت ”یھدی بھ کثیراً“ کے بجائے ”یضل بھ کثیراً“ کا منظر پیش کرے۔
تفسیر قرآن میں سلف صالحین کی احتیاط ورزی تفسیر قرآن کی اسی عظمت ونزاکت کے پیش نظر بھت سے سلف صالحین‘ صحابھ وتابعین تفسیر کے باب میں لب کشائی سے گریز کرتے تھے‘ چنانچھ جماعت صحابھ کے گل سر سبد اور انبیاء کرام علیھم السلام کے بعد انسانیت کے سب سے افضل ترین شخص حضرت ابوبکر صدیق رضی اللھ عنھ ھیں‘ ان کے بارے میں منقول ھے کھ ان سے قرآن کریم کے کسی لفظ کے معنیٰ دریافت کئے گئے تو فرمایا:
”ای ارض تقلنی وای سماء تظلنی اذا قلت فی کتاب اللھ مالا اعلم“۔ (تفسیر ابن کثیر ج:۱‘ص:۵)
ترجمھ:․․․”مجھے کون سی زمین اٹھائے گی او رکون سا آسمان مجھ پر سایھ فگن ھوگا۔ اگر میں کتاب اللھ کے بارے میں ایسی بات کھوں جس کا مجھے علم نھیں“۔
اور سید التابعین حضرت سعید بن مسیب کے بارے میں منقول ھے کھ جب ان سے قرآن کریم کی کسی آیت کی تفسیر کے بارے میں سوال کیا جاتا تو فرماتے:
”انا لانقول فی القرآن شیئاً“۔ (ابن کثیر ج:۱‘ص:۶)
یعنی ”ھم قرآن کریم کی تفسیر میں کچھ نھیں کھا کرتے تھے“۔
یحیٰ ابن سعید کھتے ھیں کھ حضرت سعید بن مسیب قرآن کریم کی صرف انھی آیات میں لب کشائی کرتے تھے‘ جن کا مفھوم قطعی طور پر معلوم ھوتا تھا۔ یزید بن ابی یزید کھتے ھیں کھ جب سعید بن مسیب سے حلال وحرام اور جائز وناجائز کے بارے میں دریافت کیا جاتا تو معلوم ھوتا کھ یھ دنیا کے سب سے بڑے عالم ھیں‘ لیکن جب ھم ان سے قرآن کریم کی کسی آیت کے بارے میں سوال کرتے تو ایسے خاموش ھوجاتے گویا انھوں نے سناھی نھیں۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللھ عنھ ”اعلم الصحابھ“ ھیں اور حضرت سعید بن مسیب ”اعلم التابعین“ ھیں‘ لیکن علم وفضل‘ دانش وبصیرت‘ تقویٰ وطھارت اور نورِ قلب میں بلند مرتبھ پر فائز ھونے کے باوجود وھ قرآن کریم میں لب کشائی سے گزیر کرتے ھیں‘ کیونکھ وھ اس کی نزاکت سے باخبر ھیں‘ اور جانتے ھیں کھ تفسیر میں معمولی بے احتیاطی کا وبال کتنا سنگین ھے۔
شرائط مفسر
قرآن کریم کی تفسیر کے لئے کیسی لیاقت درکار ھے؟ اور ایک مفسر قرآن میں کن اوصاف وشرائط کا پایا جانا ضروری ھے؟علمائے امت نے اس پر تفصیل سے گفتگو فرمائی ھے۔ حافظ جلال الدین سیوطی (متوفی ۹۱۱ھ) نے ”الاتقان“ کی ۷۸ ویں نوع میں اس کا خلاصھ درج کردیا ھے۔ امام سیوطی فرماتے ھیں کھ بعض اھلِ علم تو اس کے قائل ھیں کھ کسی شخص کے لئے ‘ خواھ وھ کیسا عالم وفاضل ھو‘ قرآن کریم کی تفسیر جائز ھی نھیں‘ بلکھ جو کچھ آنحضرت ا سے منقول ھے‘ اسی پر بس کرنا ضروری ھے۔ (مگر یھ قول عامھ علماء کے نزدیک صحیح نھیں۔ ناقل)
اور علماء کی ایک جماعت اس کی قائل ھے کھ جو شخص ان علوم میں مھارت رکھتا ھو‘ جو تفسیر کے لئے ضروری ھیں‘ اس کے لئے قرآن کریم کی تفسیر جائز ھے‘ اور یھ مندرجھ ذیل پندرھ علوم ھیں:
۱- علم لغت ۲- علم صرف ۳- علم نحو ۴- علم اشتقاق
۵-علم معانی ۶-علم بیان ۷- علم بدیع ۸- علم قرآء ات
۹-علم اصول الدین ۱۰- علم اصول فقھ ۱۳-علم فقھ ۱۴-علم حدیث
۱۱- علم اسباب النزول ۱۲- علم ناسخ ومنسوخ ۱۵- نور بصیرت اور وھبی علم۔
تفسیر کے آداب
اول: تفسیر کے مأخذ میں سب سے پھلا مأخذ قرآن کریم ھے‘ اس لئے مفسر کا فرض ھے کھ وھ کسی آیت کی تفسیر کرتے ھوئے اس کے سیاق وسباق کے ساتھ ساتھ اس مضمون کی دوسری آیات کو بھی پیش نظر رکھے‘ کیونکھ قرآن کریم میں ایک ھی مضمون کو مختلف انداز وعنوان سے بیان کیا جاتاھے‘ ایک مضمون ایک جگھ مجمل ھوگا تو دوسری جگھ مفصل‘ ایک جگھ مختصر ھوگا تو دوسری جگھ مطول‘ ایک جگھ مطلق ھوگا تو دوسری جگھ مقید۔ پس قرآن کریم کی کسی آیت سے ایسا مفھوم کشید کرنا جائز نھیں ھوگا‘ جو خود قرآن کریم کی آیات بینات کے خلاف ھو۔
دوم: اسی طرح مفسر قرآن کا یھ بھی فرض ھے کھ کسی آیت کی تفسیر کرتے ھوئے اس ضمن میں آنحضرت ا کے قول وفعل‘ ھدی وسیرت اور آپ کی سنت وطریقھ کو پیش نظر رکھے اور تفسیر قرآن میں کوئی ایسی بات نھ کھے جو آنحضرت ا کی سنت ثابتھ کے خلاف ھو‘ کیونکھ حق تعالیٰ شانھ نے جس طرح قرآن کریم کے الفاظ آپ ا پر نازل فرمائے ھیں‘ اسی طرح اس کی تشریح وتوضیح کا بھی خود ذمھ لیا ھے۔ چنانچھ ارشاد ھے:
”ثم ان علینا بیانھ“ (القیامھ) ”پھر اس کا بیان کرادینا بھی ھمارا ذمھ ھے“۔ (ترجمھ حضرت تھانوی)
اس آیت کریمھ سے واضح ھے کھ آنحضرت ا کو قرآن کریم کی مراد (بیان) بھی حق تعالیٰ شانھ کی طرف سے بتائی جاتی تھی‘ اس لئے قرآن کریم کے شارح ومفسر خود حق تعالیٰ شانھ ھیں اور چونکھ آنحضرت ا نے وحی جلی وخفی اور نور نبوت کے ذریعھ قرآن کریم کو سمجھا تھا‘ اسی لئے آپ قرآن کریم کی تشریح وتفسیر میں بھی تلمیذ الرحمن تھے اور امت کو قرآن کریم کے مفھوم ومقصود سے آگاھ کرنا بھی آپ کے فرائض میں شامل تھا ۔ چنانچھ ارشاد خداوندی ھے:
”وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیھم ولعلھم یتفکرون“۔ (النحل:۴۴)
ترجمھ:․․․․”اور آپ پر بھی یھ قرآن اتارا ھے تاکھ جو جو مضامین لوگوں کے پاس بھیجے گئے ان کو آپ ان سے ظاھر کردیں اور تاکھ وھ فکر کیا کریں“۔ (ترجمھ حضرت تھانوی)
دوسری جگھ ارشاد ھے:
”وما انزلنا علیک الکتاب الا لتبین لھم الذی اختلفوا فیھ وھدی ورحمة لقوم یومنون“۔ (النحل:۶۴)
ترجمھ:․․․”اور ھم نے آپ پر یھ کتاب صرف اس واسطے نازل کی ھے کھ جن امور میں لوگ اختلاف کررھے ھیں آپ لوگوں پر اس کو ظاھر فرمادیں اور ایمان والوں کی ھدایت اور رحمت کی غرض سے“۔ (ترجمھ حضرت تھانوی)
ایک اور جگھ ارشاد ھے:
”انا انزلنا الیک الکتاب بالحق لتحکم بین الناس بما اراک اللھ“۔ (النساء:۱۰۵)
ترجمھ:․․․”بے شک ھم نے آپ کے پاس یھ نوشتھ بھیجا ھے واقع کے موافق تاکھ آپ لوگوں کے درمیان اس کے موافق فیصلھ کریں جوکھ اللھ تعالیٰ نے آپ کو بتلایادیا ھے“۔ (ترجمھ حضرت تھانوی)
پس امت کے لئے قرآن کریم کے سب سے پھلے شارح ومفسر خود آنحضرت اتھے اور آنحضرت ا کے تمام اقوال وافعال ‘ احکام وفرامین اور آپ کی سیرت وسنت قرآن حکیم ھی کی شرح وتفصیل ھے۔ اسی حقیقت کو ام المؤمنین حضرت عائشھ صدیقھ نبت ابوبکر صدیق رضی اللھ عنھما نے ان الفاظ میں بیان فرمایا:
”کان خلقھ القرآن“۔ (صحیح مسلم ج:۱‘ص:۲۵۶)
ترجمھ:․․․”آپ کا اخلاق قرآن تھا“۔
مطلب یھ کھ آپ کے اخلاق وعادات ‘ طور وطریق اور سیرت وکردار سب قرآن کریم کے سانچے میں ڈھلے ھوئے تھے اور آپ جو کچھ بھی فرماتے تھے‘ وھ سب قرآن کریم ھی کی تعلیم تھی‘ اس لئے آپ ﷺ کا ھرحکم قرآن کریم کا شارح تھا۔ اسی کو امام شافعی نے ذرا کھول کر یوں بیان فرمایا:
”کل ما حکم بھ رسول اللھ ا فھو مما فھمھ من القرآن‘ قال تعالیٰ: انا انزلنا الیک الکتاب بالحق لتحکم بین الناس بما اراک اللھ فی آیات آخر“ (الاتقان فی علوم القرآن ص:۱۷۶‘ج:۲)
ترجمھ:․․․”رسول اللھ ا نے جو فیصلے بھی فرمائے وھ آپ ا نے قرآن کریم ھی سے سمجھے تھے‘ چنانچھ اللھ تعالیٰ کا ارشاد ھے: ”بے شک ھم نے آپ کے پاس یھ نوشتھ بھیجا ھے واقع کے موافق تاکھ آپ ان لوگوں کے درمیان اس کے موافق فیصلھ کریں جوکھ اللھ تعالیٰ نے آپ کو بتلادیا ھے“۔
ھمارے شیخ حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری نور اللھ مرقدھ نے اپنے شیخ امام العصر مولانا محمد انور شاھ کشمیری قدس سرھ کا ارشاد نقل کیا ھے:
”اگر نور بصیرت کے ساتھ احادیث شریفھ پر غور کیا جائے تو نظر آئے گا کھ بھت سی احادیث قرآن کریم کے چشمھ صافی سے نکلی ھیں‘ یھاں تک کھ بھت سی احادیث شریفھ میں قرآن کریم کی تعبیرات کی طرف لطیف اشارات پائے جاتے ھیں“۔ (یتیمة البیان ص:۲۸)
قرآن کریم کی تشریح وتفسیر کے لئے قرآن کریم کے شارح اول حضرت محمد رسول اللھ ا کی تشریح وتبیین کس قدر ناگزیر ھے‘ اس کا اندازھ مندرجھ ذیل مثالوں سے ھوگا۔
۱- قرآن کریم میں بار بار اقامت صلوٰة کا حکم دیا گیا ھے‘کس وقت کی نماز کی کتنی رکعات ھیں؟ نماز کے شرائط وارکان کیا ھیں؟نماز کھاں سے شروع ھوکر کھاں ختم ھوتی ھے وغیرھ؟ بیسیوں سوالات ایسے ھیں جن کی تشریح آنحضرت ا نے اپنے قول وفعل سے فرمائی ھے اور ان تشریحات نبوی ا کے بغیر کسی شخص کے لئے یھ ممکن نھیں کھ قرآن کریم کے حکم ”اقامت صلوٰة“ کا مفھوم متعین کرسکے۔
۲- قرآن کریم میں بھت سی جگھ زکوٰة ادا کرنے کا حکم دیا گیاھے۔ لیکن زکوٰة کس مال پر فرض ھے‘ کس پر نھیں؟ زکوٰة کا نصاب کیا ھے؟ زکوٰة کی کتنی مقدار فرض ھے؟ یھ اور اس قسم کے تمام امور آنحضرت ا کی تشریح سے امت کو معلوم ھوئے ھیں‘ ورنھ کوئی شخص مراد خداوندی کو دریافت نھیں کرسکتا تھا۔
۳- قرآن کریم میں حج بیت اللھ کا حکم دیا گیا ھے‘ لیکن حج کا طریقھ کیا ھے؟ اور اس کے ارکان ولوازمات کیا ھیں؟ ان تمام امور کی تفصیل آنحضرت ا کی قولی وعملی تشریح سے معلوم ھوئی ‘ اس کے بغیر کوئی شخص ”قرآنی حج“ کا طریقھ کار متعین نھیں کرسکتا تھا۔
یھ چند مثالیں‘ اسلام کے اھم ترین ارکان کی عرض کی گئی ھیں‘ جن سے اندازھ ھوسکتاھے کھ قرآن کریم کی مراد آنحضرت ا کے قول وفعل اور ھدی وسیرت میں متشکل ھوکر سامنے آتی ھے۔
سوم: مفسر کے لئے یھ بھی لازم ھے کھ تفسیر میں آنحضرت ا کے‘ صحابھ کرام رضوان اللھ علیھم اجمعین کے انوار سے روشنی حاصل کرے‘ اور کسی آیت کی ایسی تفسیر نھ کرے جو حضرات صحابھ کی تفسیر کے خلاف ھو‘ کیونکھ صحابھ کرام مدرسھٴ نبوت کے بلاواسطھ شاگرد ھیں‘ اور حق تعالیٰ شانھ کی جانب سے آنحضرت ا ایسے معلم انسانیت کو ان کا معلم ومرشد اور ھادی بنایاگیا‘ جیساکھ متعدد مقامات پر فرمایاھے: ”ویعلمھم الکتاب والحکمة“۔ ظاھر ھے کھ آنحضرت ا کی تعلیم‘ کتاب وحکمت کے بعد قرآن فھمی میں صحابھ کرام کا ھمسر کون ھوسکتا ھے؟ پھر صحابھ کرام نزول وحی اور اس کی عملی تشکیل کے عینی شاھد ھیں‘ سیوطی نے الاتقان میں امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللھ وجھھ کا ارشاد نقل کیا ھے:
”واللھ ما نزلت آیة الا وقد علمت فیم انزلت واین انزلت ان ربی وھب قلباً مقولاً ولسانا مسئولاً“۔ (الاتقان نوع:۸۰)
ترجمھ:․․․”اللھ کی قسم! جو آیت بھی نازل ھوئی اس کے بارے میں مجھے معلوم ھے کھ کس بارے میں نازل ھوئی اور کھاں نازل ھوئی ۔ میرے رب نے مجھے بھت سمجھنے والا دل اور بھت پوچھنے والی زبان عطا فرمائی ھے“۔
ایک دوسری روایت میں ھے کھ آپ نے برسر منبر فرمایا:
”سلونی‘ فواللھ لاتسألون عن شئ الا اخبرتکم وسلونی عن کتاب اللھ‘ فواللھ ما من آیة الا وانا اعلم ابلیل نزلت ام بنھار‘ ام فی سھل ام فی جبل“۔
ترجمھ:․․․”مجھ سے سوال کرو پس اللھ کی قسم! مجھ سے جو بات بھی پوچھو گے‘ اس کا جواب دوں گا اور مجھ سے کتاب اللھ کے بارے میں پوچھو‘ پس اللھ کی قسم! قرآن کریم کی کوئی آیت ایسی نھیں جس کے بارے میں مجھے یھ علم نھ ھو کھ وھ رات کے وقت اتری تھی یا دن کے وقت میدان میں اتری تھی یا پھاڑ پر“۔
اسی طرح فقیھ الامت حضرت عبد اللھ بن مسعود کا ارشاد نقل کیا ھے:
”والذی لا الھ غیرھ ما نزلت آیة من کتاب اللھ الا وقد علمت فیمن نزلت‘ واین نزلت‘ ولو اعلم مکان احد اعلم بکتاب اللھ منی تنالھ المطایا لاتیتھ“(حوالھ بالا)
ترجمھ:․․․”اس ذات کی قسم! جس کے سوا کوئی معبود نھیں کتاب اللھ کی جو آیت بھی نازل ھوئی اس کے بارے میں مجھے معلوم ھے کھ کس کے حق میں نازل ھوئی اور کھاں نازل ھوئی اور اگر مجھے معلوم ھو کھ کوئی شخص کتاب اللھ کا مجھ سے زیادھ علم رکھتاھے اور اس تک پھنچنا ممکن ھو تو میں ضرور اس کی خدمت میں حاضر ھوتا“۔
پھر صحابھ کرام رضوان اللھ علیھم اجمعین نے ایسی محنت وجانفشانی سے فھم قرآن میں مھارت حاصل کی تھی کھ کوئی دوسرا شخص اس کا تصور بھی نھیں کرسکتا۔ اس سلسلھ میں صحابھ کریم کے بھت سے عجیب وغریب واقعات نقل کئے گئے ھیں‘ ان تمام واقعات کو نقل کرنا‘ موجب طوالت ھوگا۔ یھاں حضرت ابو عبد الرحمن اسلمی کا صرف ایک فقرھ نقل کردینا کافی ھوگا۔ وھ فرماتے ھیں:
”حدثنا الذین کانوا یقرء ون القرآن کعثمان بن عفان وعبد اللھ بن مسعود وغیرھما‘ انھم کانوا اذ تعلموا عن النبی ا آیات لم یتجا وزوھاا حتی یعلموا ما فیھا من العلم والعمل قالوا! فتعلمنا القرآن والعلم جمیعاً ولھذا کانوا یبقون مدة فی حفظ السورة“۔ (الاتقان نوع:۷۸)
ترجمھ:․․․”جو حضرات ھمیں قرآن پڑھاتے تھے‘ جیسے حضرت عثمان‘ حضرت عبد اللھ بن مسعود اور دیگر حضرات رضی اللھ عنھم‘ انھوں نے ھمیں بتایا کھ وھ جب آنحضرت ا سے دس آیتیں سیکھ لیتے تھے تو آگے نھیں بڑھتے تھے‘ یھاں تک کھ ان آیات میں جو کچھ علم وعمل ھے اس کا علم حاصل نھ کرلیں۔ وھ فرماتے تھے کھ ھم نے قرآن کریم‘ علم اور عمل تینوں کو اکھٹے سیکھا تھا‘ اسی بناء پر وھ مدت تک ایک سورة کے حفظ میں مشغول رھتے تھے“۔
الغرض تفسیر نبوی اکے بعد صحابھ کرام کی تفسیر سب سے مقدم ھے اور حقیقت میں وھ بھی آنحضرت ا ھی کی تعلیم کا ثمرھ ھے‘ اس لئے ایک مفسر کے لئے اس کا نظر انداز کرنا کسی طرح ممکن نھیں اور اسی ضمن میں اکابر تابعین کی تفسیر آتی ھے جنھوں نے صحابھ کرام سے قرآن کریم کی باقاعدھ تعلیم حاصل کی تھی‘ اس لئے مفسر پر لازم ھے کھ وھ صحابھ وتابعین کی تفسیر کے خلاف نھ چلے۔
چھارم: مفسر کے لئے یھ بھی ضروری ھے کھ وھ اھل حق کے عقائد واعمال اور اخلاق کا پابند ھو۔ ”الاتقان“ میں امام ابوطالب طبری سے نقل کیا ھے:
”ان من شرطھ صحة الاعتقاد اولاً‘ ولزوم سنة الدین‘ فان من کان مغموصاً علیھ فی دینھ لایؤتمن علی الدنیا فکیف علی الدین‘ ثم لایؤتمن فی الدین علی الاخبار عن عالم فکیف یؤتمن فی الاخبار عن اسرار اللھ تعالیٰ ولانھ لایؤمن ان کان متھما بالالحاد ان یبغی الفتنة ویغر الناس بلیّھ وخداعھ“ (الاتقان نوع:۷۸)
ترجمھ:․․․”مفسر کے شرائط میں سے ایک یھ بھی ھے کھ پھلے تو اس کا عقیدھ صحیح ھو ‘ دوسرے وھ سنت دین کا پابند ھو‘ کیونکھ جو شخص دین میں مخدوش ھو‘ کسی دنیوی معاملے میں بھی اس پر اعتماد نھیں کیا جاسکتا تو دین کے معاملے میں اس پر کیا اعتماد کیا جائے گا۔ پھر ایسا شخص اگر کسی عالم سے دین کے بارے میں کوئی بات نقل کرے‘ اس میں بھی وھ لائق اعتماد نھیں‘ اسرار الٰھی کی خبر دینے میں تو کیا لائق اعتماد ھوگا۔ نیز ایسے شخص پر اگر الحاد کی تھمت ھو تو اس کے بارے میں یھ اندیشھ ھے کھ وھ تفسیر لکھ کر کوئی فتنھ کھڑا کردے اور لوگوں کو اپنی چرب زبانی ومکاری سے گمراھ کرے“۔
پنجم:اسی طرح ھرقسم کی بدعت وکجروی سے مفسر کے ذھن کا پاک ھونا بھی ضروری ھے‘ ورنھ اس کی تفسیر ناقابل اعتماد ھوگی‘ کیونکھ وھ قرآن کریم کو اپنی بدعت کے رنگ میں ڈھالنا شروع کردے گا‘ نام تو ھوگا تفسیر قرآن کا‘ لیکن جو کچھ وھ لکھے گا‘ وھ قرآن کریم کی تفسیر نھیں ھوگی‘ بلکھ اس کے بدعت آلود ذھن کا بخار ھوگا۔ اللھ تعالیٰ نے ایسے لوگوں پر فھم قرآن کریم کو حرام کردیا ھے‘ جو بدعت وخواھش نفسانی کا چشمھ لگاکر قرآن کریم کا مطالعھ کرتے ھیں۔ ”الاتقان“ میں امام زرکشی کی ”البرھان“ سے نقل کیا ھے:
”اعلم انھ لایحصل للناظر فھم معانی الوحی‘ ولایظھر لھ اسرارھ‘ وفی قلبھ بدعة او کبر او ھویٰ او حب الدنیا او ھو مصر علی ذنب‘ او غیر متحقق بالایمان او ضعیف التحقیق‘ او یعتمد علی قول مفسر لیس عندھ علم‘ او راجع الی معقولھ‘ وھذھ کلھا حجب وموانع‘ بعضھا آکد من بعض“۔
(الاتقان نوع:۷۸ ج:۲‘ص:۸۱)
ترجمھ:․․․”جاننا چاھئے کھ قرآن کریم کا مطالعھ کرنے والے پر وحی کے معانی ظاھر نھیں ھوتے اور اس پر وحی کے اسرار نھیں کھلتے‘ جبکھ اس کے دل میں بدعت ھو‘ یا تکبر ھو‘ یا اپنی ذاتی خواھش ھو‘ یا دنیا کی محبت ھو‘ یا وھ گناھ پر اصرار کرنے والا ھو‘ یا اس کا ایمان پختھ نھ ھو‘ یا اس میں تحقیق کا مادھ کمزورھو‘ یا وھ کسی ایسے مفسر کے قول پر اعتماد کرے جو علم سے کورا ھو‘ یا وھ قرآن کریم کی تفسیر میں محض عقل کے گھوڑے دوڑا تاھو۔ یھ تمام چیزیں فھم قرآن سے حجاب اور مانع ھیں‘ ان میں بعض دوسری بعض سے زیادھ قوی ھیں“۔
تفسیر بالرائے
جس طرح مفسر کا یھ فرض ھے کھ وھ اپنے خیالات وافکار سے خالی الذھن ھوکر یھ سمجھنے کی کوشش کرے کھ اس آیت میں قرآن کریم کی دعوت کیا ھے‘ اور کن کن مسائل پر روشنی ڈالی جارھی ھے‘ خود اپنے خیالات وافکار قرآن کریم میں ٹھونسنے کی کوشش نھ کرے۔ اسی طرح اس کا یھ بھی فرض ھے کھ تفسیر بالرائے سے اجتناب کرے‘ کیونکھ تفسیر بالرائے حرام ھے‘ اور اس پر سخت وعید آئی ھے۔ آنحضرت ا کا ارشاد گرامی ھے:
”من قال فی القرآن برأیھ فلیتبؤا مقعدھ من النار․․․ وفی روایة: من قال فی القرآن بغیر علم فلیتبوأ مقعدھ من النار“۔ (رواھ الترمذی‘ مشکوٰة ص:۳۵)
ترجمھ:․․․”جس شخص نے قرآن میں اپنی رائے سے کوئی بات کھی وھ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنائے اور ایک روایت میں ھے کھ جس شخص نے بغیر علم کے قرآن میں کوئی بات کھی وھ اپنا ٹھکانھ دوزخ میں بنائے“۔
ایک اور حدیث میں ھے:
”من قال فی القرآن برایھ فاصاب فقد اخطأ“۔ (رواھ الترمذی وابوداود)
ترجمھ:․․․”جس شخص نے قرآن میں اپنی رائے سے کوئی بات کھی‘ اس نے اگر ٹھیک کیا تب بھی غلط کیا“۔
ت
فسیر بالرائے سے کیا مرادھے؟
امام سیوطی ”الاتقان“ (نوع ۷۸) میں ابن النقیب کے حوالے سے لکھتے ھیں کھ تفسیر بالرائے سے کیا مراد ھے؟ اس میں اھل علم کے پانچ قول ملتے ھیں:
اول: یھ کھ تفسیر قرآن کیلئے جن علوم کی ضرورت ھے‘ کوئی شخص ان کو حاصل کئے بغیر تفسیر کرنے بیٹھ جائے۔
دوم: کوئی شخص ان متشابھات کی تفسیر کرنے لگے جن کی مراد اللھ تعالیٰ کے سوا کوئی نھیں جانتا۔
سوم: غلط مذھب کو ثابت کرنے کے لئے تفسیر کرنا۔ یعنی کوئی شخص اپنے مذھب فاسد کو تو اصل بنائے اور تفسیر کو اس کے تابع کرے اور جس طرح بھی ممکن ھو کھینچ تان کر قرآن کریم کو اپنے مذھب پرچسپاں کرے۔
چھارم: بغیر دلیل کے کسی آیت کے بارے میں یھ دعویٰ کرنا کھ اس سے اللھ تعالیٰ کی قطعی مراد یھ ھے۔
پنجم: محض اپنی خواھش وپسند کے مطابق تفسیر کرنا۔ (الاتقان: ص ۱۸۳ جلد دوم)
تحریف معنوی
خلاصھ یھ کھ یھ تمام صورتیں تفسیر بالرائے کے تحت داخل ھیں‘ ھمارے زمانے میں قادیانی‘ پرویزی وغیرھ دیگر گمراھ اورکجرو فرقوں کی تفسیروں کا یھی حال ھے‘ ان کی تفسیر بالرائے سے بڑھ کر قرآن کریم کی کھلی کھلی تحریف معنوی ھے‘ چنانچھ قرآن کریم کی آڑ لے کر قطعیات دین کا انکار کیا جاتا ھے، آنحضرت ا کی سنت متواترھ کو پس پشت ڈالا جاتاھے‘ اسلام کے قطعی واجماعی عقائد کو جھٹلایاجاتاھے۔
چودھ سو سالھ اکابر امت کے اجماع مسلسل سے (جس کو قرآن کریم نے ”سبیل المؤمنین“ فرمایا ھے) انحراف کیا جاتاھے اور لغت وزبان کے قواعد سے آزاد ھوکر قرآن کریم کو جاھلانھ تحریفات کا تختھٴ مشق بنایا جاتاھے ضروری تھا کھ ایسی تحریفات کی بھی چند مثالیں ذکر کردی جاتیں‘ لیکن افسوس ! کھ اس مختصر مضمون میں اس کی گنجائش نھیں۔
ترجمھ قرآن کے آداب
قرآن کریم کا ترجمھ بھی تفسیر وترجمانی ھی کی ایک صورت ھے‘ اس لئے ترجمھ قرآن میں بھی مندرجھ بالا اصول کا لحاظ رکھنا اشد ضروری ھے‘ بلکھ واقعھ یھ ھے کھ قرآن کریم کا صحیح ترجمھ کرنا اس کی تفسیر سے بھی مشکل اور نازک کام ھے‘ اس لئے اس میں حزم واحتیاط کی ضرورت اور بھی زیادھ ھے ‘ ترجمھ کرتے وقت قرآن کریم کے الفاظ واسلوب کی رعایت رکھنا چاھئے اور یھ ایسی مشکل اور دشوار گذار گھاٹی ھے کھ اچھے اچھے لوگ اس میں لڑکھڑا جاتے ھیں‘ یھاں مؤرخ اسلام سید الملة والدین علامھ سید سلیمان ندوی رحمھ اللھ کا اقتباس نقل کرتاھوں جو مولانا قاضی محمد زاھد الحسینی مدظلھ نے ”معارف القرآن“ میں ماھنامھ ”العلم“ کراچی کے حوالے سے نقل کیا ھے‘ سید صاحب لکھتے ھیں:
”اس سلسلے میں مجھے دو باتیں کھنی ھیں‘ ایک تو یھ کھ قرآن پاک کے ترجمے میں بے احتیاطی کو کام میں نھ لایاجائے‘ یھ تحریف ھے اور جس کی سزا کا حال معلوم ھے‘ ترجمھ بالکل لفظی کرنا چاھئے‘ پھر آپ اس کی تشریح اپنے ضروری مطلب کے ساتھ کرسکتے ھیں‘ یھ کسی طرح درست نھیں کھ ترجمھ میں الفاظ کی رعایت کے بغیراپنے مطلوب کے مطابق کوشش کی جائے‘ یھ شدید تحریف ھے۔ آپ دیکھیں گے کھ پھر کسی دوسری ضرورت کے وقت آپ کو اس آیت کا دوسرا ترجمھ دوسرے ڈھنگ سے کرنا پڑے گا‘ اس وقت آپ پر یھ ثابت ھوجائے گا کھ ھم نے اتباع ھویٰ کا دانستھ ارتکاب کیا‘ دوسری چیز یھ ھے کھ جمھور اسلام جس مسئلھ پر اعتقادی وعملی طور پر متفق ھوں‘ ان کو چھوڑ کر تحقیق کی نئی راھ اختیار نھ کی جائے‘ یھ طریق تواتر وتوارث کی بیخ کنی کے مترادف ھے‘ اس گناھ کا مرتکب کبھی میں خود ھوچکا ھوں اور اس کی اعتقادی وعملی سزا بھگت چکا ھوں‘ اس لئے دل سے چاھتاھوں کھ اب میرے عزیزوں اور دوستوں میں سے کوئی اس راھ سے نھ نکلے‘ تاکھ وھ اس سزا سے محفوظ رھے جو ان سے پھلوں کو مل چکی“۔(معارف القرآن ص:۴۶ از مولانا قاضی زاھد الحسینی بحوالھ ماھنامھ العلم کراچی جنوری تا مارچ ۱۹۵۹ء)
چند مفید تفاسیر
تفسیر کے موضوع پر ان مختصر اشارات کو ختم کرتے ھوئے مناسب معلوم ھوتا ھے کھ چند مفید اور آسان تفاسیر کی طرف راھنمائی کردی جائے۔
۱- معارف القرآن: (آٹھ جلدوں میں) از مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی‘ اس میں قرآن کریم کے متن کے ساتھ حضرت شیخ الھند کا ترجمھ ھے اور خلاصھ تفسیر حضرت حکیم الامت تھانوی کی بیان القرآن سے ماخوذ ھے اور پھر ”معارف ومسائل“ کے عنوان سے ضروری تشریحات ونکات اور مسائل ذکر کئے جاتے ھیں۔ ھمارے دور کی یھ مفید ترین تفسیر ھے۔
۲- معارف القرآن: از مولانا محمد ادریس کاندھلوی محدثانھ انداز کی یھ بھترین تفسیر ھے‘ متن قرآن کے ساتھ شاھ عبد القادرمحدث دھلوی کا ترجمھ ھے۔ تفسیر میں بیان القرآن کی پیروی کی گئی ھے اور حدیثی‘ کلامی‘ فقھی اور تاریخی فوائد کا گراں قدر اضافھ کیا گیا ھے‘ حضرت مولانا رحمھ اللھ اس کی تکمیل نھیں فرما سکے تھے‘ ان کے صاحبزادھ گرامی حضرت مولانا محمد مالک کاندھلوی شیخ الحدیث جامعھ اشرفیھ لاھور نے اس کی تکمیل فرمائی ھے۔
۳- فوائد عثمانی بر ترجمھ شیخ الھند: حضرت شیخ :الھند مولانا محمود حسن دیوبندی قدس سرھ نے حضرت شاھ عبد القادر محدث دھلوی کے ترجمھ کو جدید قالب میں ڈھالاتھا اور سورھٴ بقرھ اور سورة النساء کے فوائد بھی تحریر فرمائے تھے‘ بقیھ فوائد حضرت شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی نے تحریر فرمائے‘ یھ تفسیر ایک ادبی شاھکار ھے اور قرآن فھمی کے لئے کلید کا حکم رکھتی ھے۔
۴- تفسیر کشف الرحمن: از سحبان الھند مولانا احمد سعید دھلوی اس تفسیر میں بھی ترجمھ اور سیر کے لئے حضرت شاھ عبد القادر کی تفسیر موضح القرآن کو بنیاد بنایاگیا ھے اور قرآنی مفاھیم کو دھلی کی ٹکسالی زبان میں کیا گیاھے۔
وآخر دعوانا ان الحمد للھ رب العالمین
تفسیر قرآن کریم کےآداب
اور عصر حاضر کے جدید مفسرین
تفسیر وتاویل کا مفھوم
تفسیر کے معنی ھیں کسی چیز کا کھولنا‘ ظاھر کرنا‘ بیان کرنا۔ اور اھلِ علم کی اصطلاح میں تفسیرِ قرآن کے معنی ھیں: ”قرآنِ کریم کے معانی کو بیان کرنا اور مرادِ خداوندی کی تعیین کرنا“۔
تاویل کے معنی ھیں: پھیرنا‘ لوٹانا۔ اور اھلِ علم کی اصطلاح میں تاویل سے مراد ھے: ”قرآنِ کریم کے الفاظ اور جملوں کو ان کی اصل مراد کی طرف لوٹانا“۔
تفسیر وتاویل کے الفاظ عموماً ھم معنی استعمال کئے جاتے ھیں۔ اور بعض اھلِ علم ان دونوں کے درمیان یھ فرق کرتے ھیں کھ تفسیر کا لفظ زیادھ تر مفرد الفاظ کی تشریح کے لئے استعمال ھوتا ھے‘ اور تاویل کا لفظ جملوں کا مفھوم بیان کرنے کے لئے۔
بعض حضرات فرماتے ھیں کھ جس فقرے کا مفھوم قطعی طور پر متعین ھو اور اس میں کسی دوسرے مفھوم کی گنجائش نھ ھو‘ ایسے مفھوم کو بیان کرنا تفسیر کھلاتاھے۔ اور جھاں متعدد معانی کا احتمال ھو وھاں غور فکر کے بعد ایک پھلو کو متعین کرنے کا نام ”تاویل“ ھے۔ اور بعض حضرات فرماتے ھیں کھ جو مفھوم منقول ھو‘ اس کا نام تفسیر ھے اور جو اجتھاد واستنباط سے تعلق رکھتا ھو‘ اسے تاویل کھا جائے گا۔ (مزید تفصیل کے لئے دیکھئے الاتقان نوع ۷۷) خلاصھ یھ کھ: ”علمِ تفسیر اس علم کو کھتے ھیں جس میں قرآنِ کریم کے معنی بیان کئے جائیں اور اس کے احکام اور حکمتوں کو کھول کر واضح کیا جائے“۔(معارف القرآن مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی جلد اول ص:۴۹)
ایک نازک ترین ذمھ داری
قرآنِ کریم کی تفسیر وتشریح ایک کٹھن کام اور نھایت نازک ترین ذمھ داری ھے‘ اس لئے کھ قرآنِ کریم حق تعالیٰ شانھ کا مقدس کلام ھے اور قرآنِ کریم کی تفسیر درحقیقت حق تعالیٰ شانھ کی ترجمانی کا نام ھے‘ جب ھم قرآنِ کریم کے کسی لفظ‘ کسی جملے یا کسی آیت کی تفسیر بیان کرتے ھیں تو گویا ھم دعویٰ کرتے ھیں کھ اللھ تعالیٰ کی یھی مراد ھے‘ اس طرح اپنے بیان کئے ھوئے مفھوم کو حق تعالیٰ شانھ کی طرف منسوب کرتے ھیں‘ ظاھر ھے کھ اس سلسلھ میں ذراسی لغزش اور سھل نگاری افترأ علی اللھ کا موجب ھوسکتی ھے‘ افترأ علی اللھ نھایت سنگین جرم ھے‘ حق تعالیٰ شانھ کا ارشاد ھے:
”ومن اظلم ممن افتریٰ علی اللھ کذباً او کذب باٰیاتھ‘ انھ لایفلح الظالمین“۔
ترجمھ:․․․”اور اس سے زیادھ کون بے انصاف ھوگا‘ جو اللھ تعالیٰ پر جھوٹ بھتان باندھے‘ یا اللھ تعالیٰ کی آیات کو جھوٹا بتلاوے‘ ایسے بے انصافوں کی رستگاری نھ ھوگی“۔
(ترجمھ حکیم الامت حضرت تھانوی)
سربراھانِ مملکت اور شاھانِ عالم کی ترجمانی کے فرائض ادا کرنا سب جانتے ھیں کھ کس قدر نازک ذمھ داری ھے‘ اور جو شخص اس ذمھ داری پر فائز ھو‘ اس کے لئے کیسی لیاقت ومھارت شرط ھے؟ شاھانھ رسوم وآداب اور زبان ومحاورات سے اس کا کس درجھ باخبر ھونا ضروری ھے‘ پھر ترجمانی کے فرائض ادا کرتے ھوئے اسے کس قدر حزم واحتیاط اور بیدار مغزی سے کام لینا چاھئے‘ اور پھر دانستھ ونادانستھ غلط ترجمانی پر کس قدر عتاب شاھی کا اندیشھ ھے؟ جب سلاطین دنیا کی ترجمانی اس قدر نازک کام ھے‘ تو اسی سے اندازھ کیا جاسکتا ھے کھ شھنشاہِ مطلق‘ احکم الحاکمین کی ترجمانی کا کام کس قدر مشکل اور کتنا نازک ھوگا۔
قرآنِ کریم کی تفسیر اپنے اندر نزاکت کا ایک اور پھلو بھی رکھتی ھے‘ اور وھ یھ کھ قرآنِ کریم ھی سے شاھراھ انسانیت کی نشاندھی ھوتی ھے‘ اسی سے عقائد وعبادات کی شکلیں متعین ھوتی ھیں‘ اسی سے معاملات ومعاشرت کی تشکیل ھوتی ھے‘ اسی سے حق تعالیٰ شانھ کی پسند وناپسند‘ جائز وناجائز اور حلال وحرام کی حد بندی ھوتی ھے‘ اسی سے اخلاقی قدریں وجود پذیر ھوتی ھیں‘ اسی سے انسانیت وعبدیت کے پیمانے ڈھلتے ھیں‘ اسی سے اسلام کا عالم گیر قانون وجود میں آتاھے۔ الغرض دین ومذھب‘ عقائد واعمال‘ اخلاق ومعاشرت‘ سیاست وتمدن اور عدل وانصاف کے قانونی‘ اخلاقی اور انسانی پھلوؤں کا مدار قرآنِ کریم ھے اور ظاھر ھے کھ قرآنِ کریم کی تفسیر وتشریح میں ذراسی بے احتیاطی بھی کتنے ھولناک مفاسد کا سبب بن سکتی ھے؟ اور ایسے بے احتیاط مفسر اور اس پر اعتماد کرنے والے کے حق میں شدید خطرھ ھے کھ یھ کتابِ ھدایت ”یھدی بھ کثیراً“ کے بجائے ”یضل بھ کثیراً“ کا منظر پیش کرے۔
تفسیر قرآن میں سلف صالحین کی احتیاط ورزی تفسیر قرآن کی اسی عظمت ونزاکت کے پیش نظر بھت سے سلف صالحین‘ صحابھ وتابعین تفسیر کے باب میں لب کشائی سے گریز کرتے تھے‘ چنانچھ جماعت صحابھ کے گل سر سبد اور انبیاء کرام علیھم السلام کے بعد انسانیت کے سب سے افضل ترین شخص حضرت ابوبکر صدیق رضی اللھ عنھ ھیں‘ ان کے بارے میں منقول ھے کھ ان سے قرآن کریم کے کسی لفظ کے معنیٰ دریافت کئے گئے تو فرمایا:
”ای ارض تقلنی وای سماء تظلنی اذا قلت فی کتاب اللھ مالا اعلم“۔ (تفسیر ابن کثیر ج:۱‘ص:۵)
ترجمھ:․․․”مجھے کون سی زمین اٹھائے گی او رکون سا آسمان مجھ پر سایھ فگن ھوگا۔ اگر میں کتاب اللھ کے بارے میں ایسی بات کھوں جس کا مجھے علم نھیں“۔
اور سید التابعین حضرت سعید بن مسیب کے بارے میں منقول ھے کھ جب ان سے قرآن کریم کی کسی آیت کی تفسیر کے بارے میں سوال کیا جاتا تو فرماتے:
”انا لانقول فی القرآن شیئاً“۔ (ابن کثیر ج:۱‘ص:۶)
یعنی ”ھم قرآن کریم کی تفسیر میں کچھ نھیں کھا کرتے تھے“۔
یحیٰ ابن سعید کھتے ھیں کھ حضرت سعید بن مسیب قرآن کریم کی صرف انھی آیات میں لب کشائی کرتے تھے‘ جن کا مفھوم قطعی طور پر معلوم ھوتا تھا۔ یزید بن ابی یزید کھتے ھیں کھ جب سعید بن مسیب سے حلال وحرام اور جائز وناجائز کے بارے میں دریافت کیا جاتا تو معلوم ھوتا کھ یھ دنیا کے سب سے بڑے عالم ھیں‘ لیکن جب ھم ان سے قرآن کریم کی کسی آیت کے بارے میں سوال کرتے تو ایسے خاموش ھوجاتے گویا انھوں نے سناھی نھیں۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللھ عنھ ”اعلم الصحابھ“ ھیں اور حضرت سعید بن مسیب ”اعلم التابعین“ ھیں‘ لیکن علم وفضل‘ دانش وبصیرت‘ تقویٰ وطھارت اور نورِ قلب میں بلند مرتبھ پر فائز ھونے کے باوجود وھ قرآن کریم میں لب کشائی سے گزیر کرتے ھیں‘ کیونکھ وھ اس کی نزاکت سے باخبر ھیں‘ اور جانتے ھیں کھ تفسیر میں معمولی بے احتیاطی کا وبال کتنا سنگین ھے۔
شرائط مفسر
قرآن کریم کی تفسیر کے لئے کیسی لیاقت درکار ھے؟ اور ایک مفسر قرآن میں کن اوصاف وشرائط کا پایا جانا ضروری ھے؟علمائے امت نے اس پر تفصیل سے گفتگو فرمائی ھے۔ حافظ جلال الدین سیوطی (متوفی ۹۱۱ھ) نے ”الاتقان“ کی ۷۸ ویں نوع میں اس کا خلاصھ درج کردیا ھے۔ امام سیوطی فرماتے ھیں کھ بعض اھلِ علم تو اس کے قائل ھیں کھ کسی شخص کے لئے ‘ خواھ وھ کیسا عالم وفاضل ھو‘ قرآن کریم کی تفسیر جائز ھی نھیں‘ بلکھ جو کچھ آنحضرت ا سے منقول ھے‘ اسی پر بس کرنا ضروری ھے۔ (مگر یھ قول عامھ علماء کے نزدیک صحیح نھیں۔ ناقل)
اور علماء کی ایک جماعت اس کی قائل ھے کھ جو شخص ان علوم میں مھارت رکھتا ھو‘ جو تفسیر کے لئے ضروری ھیں‘ اس کے لئے قرآن کریم کی تفسیر جائز ھے‘ اور یھ مندرجھ ذیل پندرھ علوم ھیں:
۱- علم لغت ۲- علم صرف ۳- علم نحو ۴- علم اشتقاق
۵-علم معانی ۶-علم بیان ۷- علم بدیع ۸- علم قرآء ات
۹-علم اصول الدین ۱۰- علم اصول فقھ ۱۳-علم فقھ ۱۴-علم حدیث
۱۱- علم اسباب النزول ۱۲- علم ناسخ ومنسوخ ۱۵- نور بصیرت اور وھبی علم۔
تفسیر کے آداب
اول: تفسیر کے مأخذ میں سب سے پھلا مأخذ قرآن کریم ھے‘ اس لئے مفسر کا فرض ھے کھ وھ کسی آیت کی تفسیر کرتے ھوئے اس کے سیاق وسباق کے ساتھ ساتھ اس مضمون کی دوسری آیات کو بھی پیش نظر رکھے‘ کیونکھ قرآن کریم میں ایک ھی مضمون کو مختلف انداز وعنوان سے بیان کیا جاتاھے‘ ایک مضمون ایک جگھ مجمل ھوگا تو دوسری جگھ مفصل‘ ایک جگھ مختصر ھوگا تو دوسری جگھ مطول‘ ایک جگھ مطلق ھوگا تو دوسری جگھ مقید۔ پس قرآن کریم کی کسی آیت سے ایسا مفھوم کشید کرنا جائز نھیں ھوگا‘ جو خود قرآن کریم کی آیات بینات کے خلاف ھو۔
دوم: اسی طرح مفسر قرآن کا یھ بھی فرض ھے کھ کسی آیت کی تفسیر کرتے ھوئے اس ضمن میں آنحضرت ا کے قول وفعل‘ ھدی وسیرت اور آپ کی سنت وطریقھ کو پیش نظر رکھے اور تفسیر قرآن میں کوئی ایسی بات نھ کھے جو آنحضرت ا کی سنت ثابتھ کے خلاف ھو‘ کیونکھ حق تعالیٰ شانھ نے جس طرح قرآن کریم کے الفاظ آپ ا پر نازل فرمائے ھیں‘ اسی طرح اس کی تشریح وتوضیح کا بھی خود ذمھ لیا ھے۔ چنانچھ ارشاد ھے:
”ثم ان علینا بیانھ“ (القیامھ) ”پھر اس کا بیان کرادینا بھی ھمارا ذمھ ھے“۔ (ترجمھ حضرت تھانوی)
اس آیت کریمھ سے واضح ھے کھ آنحضرت ا کو قرآن کریم کی مراد (بیان) بھی حق تعالیٰ شانھ کی طرف سے بتائی جاتی تھی‘ اس لئے قرآن کریم کے شارح ومفسر خود حق تعالیٰ شانھ ھیں اور چونکھ آنحضرت ا نے وحی جلی وخفی اور نور نبوت کے ذریعھ قرآن کریم کو سمجھا تھا‘ اسی لئے آپ قرآن کریم کی تشریح وتفسیر میں بھی تلمیذ الرحمن تھے اور امت کو قرآن کریم کے مفھوم ومقصود سے آگاھ کرنا بھی آپ کے فرائض میں شامل تھا ۔ چنانچھ ارشاد خداوندی ھے:
”وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیھم ولعلھم یتفکرون“۔ (النحل:۴۴)
ترجمھ:․․․․”اور آپ پر بھی یھ قرآن اتارا ھے تاکھ جو جو مضامین لوگوں کے پاس بھیجے گئے ان کو آپ ان سے ظاھر کردیں اور تاکھ وھ فکر کیا کریں“۔ (ترجمھ حضرت تھانوی)
دوسری جگھ ارشاد ھے:
”وما انزلنا علیک الکتاب الا لتبین لھم الذی اختلفوا فیھ وھدی ورحمة لقوم یومنون“۔ (النحل:۶۴)
ترجمھ:․․․”اور ھم نے آپ پر یھ کتاب صرف اس واسطے نازل کی ھے کھ جن امور میں لوگ اختلاف کررھے ھیں آپ لوگوں پر اس کو ظاھر فرمادیں اور ایمان والوں کی ھدایت اور رحمت کی غرض سے“۔ (ترجمھ حضرت تھانوی)
ایک اور جگھ ارشاد ھے:
”انا انزلنا الیک الکتاب بالحق لتحکم بین الناس بما اراک اللھ“۔ (النساء:۱۰۵)
ترجمھ:․․․”بے شک ھم نے آپ کے پاس یھ نوشتھ بھیجا ھے واقع کے موافق تاکھ آپ لوگوں کے درمیان اس کے موافق فیصلھ کریں جوکھ اللھ تعالیٰ نے آپ کو بتلایادیا ھے“۔ (ترجمھ حضرت تھانوی)
پس امت کے لئے قرآن کریم کے سب سے پھلے شارح ومفسر خود آنحضرت اتھے اور آنحضرت ا کے تمام اقوال وافعال ‘ احکام وفرامین اور آپ کی سیرت وسنت قرآن حکیم ھی کی شرح وتفصیل ھے۔ اسی حقیقت کو ام المؤمنین حضرت عائشھ صدیقھ نبت ابوبکر صدیق رضی اللھ عنھما نے ان الفاظ میں بیان فرمایا:
”کان خلقھ القرآن“۔ (صحیح مسلم ج:۱‘ص:۲۵۶)
ترجمھ:․․․”آپ کا اخلاق قرآن تھا“۔
مطلب یھ کھ آپ کے اخلاق وعادات ‘ طور وطریق اور سیرت وکردار سب قرآن کریم کے سانچے میں ڈھلے ھوئے تھے اور آپ جو کچھ بھی فرماتے تھے‘ وھ سب قرآن کریم ھی کی تعلیم تھی‘ اس لئے آپ ﷺ کا ھرحکم قرآن کریم کا شارح تھا۔ اسی کو امام شافعی نے ذرا کھول کر یوں بیان فرمایا:
”کل ما حکم بھ رسول اللھ ا فھو مما فھمھ من القرآن‘ قال تعالیٰ: انا انزلنا الیک الکتاب بالحق لتحکم بین الناس بما اراک اللھ فی آیات آخر“ (الاتقان فی علوم القرآن ص:۱۷۶‘ج:۲)
ترجمھ:․․․”رسول اللھ ا نے جو فیصلے بھی فرمائے وھ آپ ا نے قرآن کریم ھی سے سمجھے تھے‘ چنانچھ اللھ تعالیٰ کا ارشاد ھے: ”بے شک ھم نے آپ کے پاس یھ نوشتھ بھیجا ھے واقع کے موافق تاکھ آپ ان لوگوں کے درمیان اس کے موافق فیصلھ کریں جوکھ اللھ تعالیٰ نے آپ کو بتلادیا ھے“۔
ھمارے شیخ حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری نور اللھ مرقدھ نے اپنے شیخ امام العصر مولانا محمد انور شاھ کشمیری قدس سرھ کا ارشاد نقل کیا ھے:
”اگر نور بصیرت کے ساتھ احادیث شریفھ پر غور کیا جائے تو نظر آئے گا کھ بھت سی احادیث قرآن کریم کے چشمھ صافی سے نکلی ھیں‘ یھاں تک کھ بھت سی احادیث شریفھ میں قرآن کریم کی تعبیرات کی طرف لطیف اشارات پائے جاتے ھیں“۔ (یتیمة البیان ص:۲۸)
قرآن کریم کی تشریح وتفسیر کے لئے قرآن کریم کے شارح اول حضرت محمد رسول اللھ ا کی تشریح وتبیین کس قدر ناگزیر ھے‘ اس کا اندازھ مندرجھ ذیل مثالوں سے ھوگا۔
۱- قرآن کریم میں بار بار اقامت صلوٰة کا حکم دیا گیا ھے‘کس وقت کی نماز کی کتنی رکعات ھیں؟ نماز کے شرائط وارکان کیا ھیں؟نماز کھاں سے شروع ھوکر کھاں ختم ھوتی ھے وغیرھ؟ بیسیوں سوالات ایسے ھیں جن کی تشریح آنحضرت ا نے اپنے قول وفعل سے فرمائی ھے اور ان تشریحات نبوی ا کے بغیر کسی شخص کے لئے یھ ممکن نھیں کھ قرآن کریم کے حکم ”اقامت صلوٰة“ کا مفھوم متعین کرسکے۔
۲- قرآن کریم میں بھت سی جگھ زکوٰة ادا کرنے کا حکم دیا گیاھے۔ لیکن زکوٰة کس مال پر فرض ھے‘ کس پر نھیں؟ زکوٰة کا نصاب کیا ھے؟ زکوٰة کی کتنی مقدار فرض ھے؟ یھ اور اس قسم کے تمام امور آنحضرت ا کی تشریح سے امت کو معلوم ھوئے ھیں‘ ورنھ کوئی شخص مراد خداوندی کو دریافت نھیں کرسکتا تھا۔
۳- قرآن کریم میں حج بیت اللھ کا حکم دیا گیا ھے‘ لیکن حج کا طریقھ کیا ھے؟ اور اس کے ارکان ولوازمات کیا ھیں؟ ان تمام امور کی تفصیل آنحضرت ا کی قولی وعملی تشریح سے معلوم ھوئی ‘ اس کے بغیر کوئی شخص ”قرآنی حج“ کا طریقھ کار متعین نھیں کرسکتا تھا۔
یھ چند مثالیں‘ اسلام کے اھم ترین ارکان کی عرض کی گئی ھیں‘ جن سے اندازھ ھوسکتاھے کھ قرآن کریم کی مراد آنحضرت ا کے قول وفعل اور ھدی وسیرت میں متشکل ھوکر سامنے آتی ھے۔
سوم: مفسر کے لئے یھ بھی لازم ھے کھ تفسیر میں آنحضرت ا کے‘ صحابھ کرام رضوان اللھ علیھم اجمعین کے انوار سے روشنی حاصل کرے‘ اور کسی آیت کی ایسی تفسیر نھ کرے جو حضرات صحابھ کی تفسیر کے خلاف ھو‘ کیونکھ صحابھ کرام مدرسھٴ نبوت کے بلاواسطھ شاگرد ھیں‘ اور حق تعالیٰ شانھ کی جانب سے آنحضرت ا ایسے معلم انسانیت کو ان کا معلم ومرشد اور ھادی بنایاگیا‘ جیساکھ متعدد مقامات پر فرمایاھے: ”ویعلمھم الکتاب والحکمة“۔ ظاھر ھے کھ آنحضرت ا کی تعلیم‘ کتاب وحکمت کے بعد قرآن فھمی میں صحابھ کرام کا ھمسر کون ھوسکتا ھے؟ پھر صحابھ کرام نزول وحی اور اس کی عملی تشکیل کے عینی شاھد ھیں‘ سیوطی نے الاتقان میں امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللھ وجھھ کا ارشاد نقل کیا ھے:
”واللھ ما نزلت آیة الا وقد علمت فیم انزلت واین انزلت ان ربی وھب قلباً مقولاً ولسانا مسئولاً“۔ (الاتقان نوع:۸۰)
ترجمھ:․․․”اللھ کی قسم! جو آیت بھی نازل ھوئی اس کے بارے میں مجھے معلوم ھے کھ کس بارے میں نازل ھوئی اور کھاں نازل ھوئی ۔ میرے رب نے مجھے بھت سمجھنے والا دل اور بھت پوچھنے والی زبان عطا فرمائی ھے“۔
ایک دوسری روایت میں ھے کھ آپ نے برسر منبر فرمایا:
”سلونی‘ فواللھ لاتسألون عن شئ الا اخبرتکم وسلونی عن کتاب اللھ‘ فواللھ ما من آیة الا وانا اعلم ابلیل نزلت ام بنھار‘ ام فی سھل ام فی جبل“۔
ترجمھ:․․․”مجھ سے سوال کرو پس اللھ کی قسم! مجھ سے جو بات بھی پوچھو گے‘ اس کا جواب دوں گا اور مجھ سے کتاب اللھ کے بارے میں پوچھو‘ پس اللھ کی قسم! قرآن کریم کی کوئی آیت ایسی نھیں جس کے بارے میں مجھے یھ علم نھ ھو کھ وھ رات کے وقت اتری تھی یا دن کے وقت میدان میں اتری تھی یا پھاڑ پر“۔
اسی طرح فقیھ الامت حضرت عبد اللھ بن مسعود کا ارشاد نقل کیا ھے:
”والذی لا الھ غیرھ ما نزلت آیة من کتاب اللھ الا وقد علمت فیمن نزلت‘ واین نزلت‘ ولو اعلم مکان احد اعلم بکتاب اللھ منی تنالھ المطایا لاتیتھ“(حوالھ بالا)
ترجمھ:․․․”اس ذات کی قسم! جس کے سوا کوئی معبود نھیں کتاب اللھ کی جو آیت بھی نازل ھوئی اس کے بارے میں مجھے معلوم ھے کھ کس کے حق میں نازل ھوئی اور کھاں نازل ھوئی اور اگر مجھے معلوم ھو کھ کوئی شخص کتاب اللھ کا مجھ سے زیادھ علم رکھتاھے اور اس تک پھنچنا ممکن ھو تو میں ضرور اس کی خدمت میں حاضر ھوتا“۔
پھر صحابھ کرام رضوان اللھ علیھم اجمعین نے ایسی محنت وجانفشانی سے فھم قرآن میں مھارت حاصل کی تھی کھ کوئی دوسرا شخص اس کا تصور بھی نھیں کرسکتا۔ اس سلسلھ میں صحابھ کریم کے بھت سے عجیب وغریب واقعات نقل کئے گئے ھیں‘ ان تمام واقعات کو نقل کرنا‘ موجب طوالت ھوگا۔ یھاں حضرت ابو عبد الرحمن اسلمی کا صرف ایک فقرھ نقل کردینا کافی ھوگا۔ وھ فرماتے ھیں:
”حدثنا الذین کانوا یقرء ون القرآن کعثمان بن عفان وعبد اللھ بن مسعود وغیرھما‘ انھم کانوا اذ تعلموا عن النبی ا آیات لم یتجا وزوھاا حتی یعلموا ما فیھا من العلم والعمل قالوا! فتعلمنا القرآن والعلم جمیعاً ولھذا کانوا یبقون مدة فی حفظ السورة“۔ (الاتقان نوع:۷۸)
ترجمھ:․․․”جو حضرات ھمیں قرآن پڑھاتے تھے‘ جیسے حضرت عثمان‘ حضرت عبد اللھ بن مسعود اور دیگر حضرات رضی اللھ عنھم‘ انھوں نے ھمیں بتایا کھ وھ جب آنحضرت ا سے دس آیتیں سیکھ لیتے تھے تو آگے نھیں بڑھتے تھے‘ یھاں تک کھ ان آیات میں جو کچھ علم وعمل ھے اس کا علم حاصل نھ کرلیں۔ وھ فرماتے تھے کھ ھم نے قرآن کریم‘ علم اور عمل تینوں کو اکھٹے سیکھا تھا‘ اسی بناء پر وھ مدت تک ایک سورة کے حفظ میں مشغول رھتے تھے“۔
الغرض تفسیر نبوی اکے بعد صحابھ کرام کی تفسیر سب سے مقدم ھے اور حقیقت میں وھ بھی آنحضرت ا ھی کی تعلیم کا ثمرھ ھے‘ اس لئے ایک مفسر کے لئے اس کا نظر انداز کرنا کسی طرح ممکن نھیں اور اسی ضمن میں اکابر تابعین کی تفسیر آتی ھے جنھوں نے صحابھ کرام سے قرآن کریم کی باقاعدھ تعلیم حاصل کی تھی‘ اس لئے مفسر پر لازم ھے کھ وھ صحابھ وتابعین کی تفسیر کے خلاف نھ چلے۔
چھارم: مفسر کے لئے یھ بھی ضروری ھے کھ وھ اھل حق کے عقائد واعمال اور اخلاق کا پابند ھو۔ ”الاتقان“ میں امام ابوطالب طبری سے نقل کیا ھے:
”ان من شرطھ صحة الاعتقاد اولاً‘ ولزوم سنة الدین‘ فان من کان مغموصاً علیھ فی دینھ لایؤتمن علی الدنیا فکیف علی الدین‘ ثم لایؤتمن فی الدین علی الاخبار عن عالم فکیف یؤتمن فی الاخبار عن اسرار اللھ تعالیٰ ولانھ لایؤمن ان کان متھما بالالحاد ان یبغی الفتنة ویغر الناس بلیّھ وخداعھ“ (الاتقان نوع:۷۸)
ترجمھ:․․․”مفسر کے شرائط میں سے ایک یھ بھی ھے کھ پھلے تو اس کا عقیدھ صحیح ھو ‘ دوسرے وھ سنت دین کا پابند ھو‘ کیونکھ جو شخص دین میں مخدوش ھو‘ کسی دنیوی معاملے میں بھی اس پر اعتماد نھیں کیا جاسکتا تو دین کے معاملے میں اس پر کیا اعتماد کیا جائے گا۔ پھر ایسا شخص اگر کسی عالم سے دین کے بارے میں کوئی بات نقل کرے‘ اس میں بھی وھ لائق اعتماد نھیں‘ اسرار الٰھی کی خبر دینے میں تو کیا لائق اعتماد ھوگا۔ نیز ایسے شخص پر اگر الحاد کی تھمت ھو تو اس کے بارے میں یھ اندیشھ ھے کھ وھ تفسیر لکھ کر کوئی فتنھ کھڑا کردے اور لوگوں کو اپنی چرب زبانی ومکاری سے گمراھ کرے“۔
پنجم:اسی طرح ھرقسم کی بدعت وکجروی سے مفسر کے ذھن کا پاک ھونا بھی ضروری ھے‘ ورنھ اس کی تفسیر ناقابل اعتماد ھوگی‘ کیونکھ وھ قرآن کریم کو اپنی بدعت کے رنگ میں ڈھالنا شروع کردے گا‘ نام تو ھوگا تفسیر قرآن کا‘ لیکن جو کچھ وھ لکھے گا‘ وھ قرآن کریم کی تفسیر نھیں ھوگی‘ بلکھ اس کے بدعت آلود ذھن کا بخار ھوگا۔ اللھ تعالیٰ نے ایسے لوگوں پر فھم قرآن کریم کو حرام کردیا ھے‘ جو بدعت وخواھش نفسانی کا چشمھ لگاکر قرآن کریم کا مطالعھ کرتے ھیں۔ ”الاتقان“ میں امام زرکشی کی ”البرھان“ سے نقل کیا ھے:
”اعلم انھ لایحصل للناظر فھم معانی الوحی‘ ولایظھر لھ اسرارھ‘ وفی قلبھ بدعة او کبر او ھویٰ او حب الدنیا او ھو مصر علی ذنب‘ او غیر متحقق بالایمان او ضعیف التحقیق‘ او یعتمد علی قول مفسر لیس عندھ علم‘ او راجع الی معقولھ‘ وھذھ کلھا حجب وموانع‘ بعضھا آکد من بعض“۔
(الاتقان نوع:۷۸ ج:۲‘ص:۸۱)
ترجمھ:․․․”جاننا چاھئے کھ قرآن کریم کا مطالعھ کرنے والے پر وحی کے معانی ظاھر نھیں ھوتے اور اس پر وحی کے اسرار نھیں کھلتے‘ جبکھ اس کے دل میں بدعت ھو‘ یا تکبر ھو‘ یا اپنی ذاتی خواھش ھو‘ یا دنیا کی محبت ھو‘ یا وھ گناھ پر اصرار کرنے والا ھو‘ یا اس کا ایمان پختھ نھ ھو‘ یا اس میں تحقیق کا مادھ کمزورھو‘ یا وھ کسی ایسے مفسر کے قول پر اعتماد کرے جو علم سے کورا ھو‘ یا وھ قرآن کریم کی تفسیر میں محض عقل کے گھوڑے دوڑا تاھو۔ یھ تمام چیزیں فھم قرآن سے حجاب اور مانع ھیں‘ ان میں بعض دوسری بعض سے زیادھ قوی ھیں“۔
تفسیر بالرائے
جس طرح مفسر کا یھ فرض ھے کھ وھ اپنے خیالات وافکار سے خالی الذھن ھوکر یھ سمجھنے کی کوشش کرے کھ اس آیت میں قرآن کریم کی دعوت کیا ھے‘ اور کن کن مسائل پر روشنی ڈالی جارھی ھے‘ خود اپنے خیالات وافکار قرآن کریم میں ٹھونسنے کی کوشش نھ کرے۔ اسی طرح اس کا یھ بھی فرض ھے کھ تفسیر بالرائے سے اجتناب کرے‘ کیونکھ تفسیر بالرائے حرام ھے‘ اور اس پر سخت وعید آئی ھے۔ آنحضرت ا کا ارشاد گرامی ھے:
”من قال فی القرآن برأیھ فلیتبؤا مقعدھ من النار․․․ وفی روایة: من قال فی القرآن بغیر علم فلیتبوأ مقعدھ من النار“۔ (رواھ الترمذی‘ مشکوٰة ص:۳۵)
ترجمھ:․․․”جس شخص نے قرآن میں اپنی رائے سے کوئی بات کھی وھ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنائے اور ایک روایت میں ھے کھ جس شخص نے بغیر علم کے قرآن میں کوئی بات کھی وھ اپنا ٹھکانھ دوزخ میں بنائے“۔
ایک اور حدیث میں ھے:
”من قال فی القرآن برایھ فاصاب فقد اخطأ“۔ (رواھ الترمذی وابوداود)
ترجمھ:․․․”جس شخص نے قرآن میں اپنی رائے سے کوئی بات کھی‘ اس نے اگر ٹھیک کیا تب بھی غلط کیا“۔
ت
فسیر بالرائے سے کیا مرادھے؟
امام سیوطی ”الاتقان“ (نوع ۷۸) میں ابن النقیب کے حوالے سے لکھتے ھیں کھ تفسیر بالرائے سے کیا مراد ھے؟ اس میں اھل علم کے پانچ قول ملتے ھیں:
اول: یھ کھ تفسیر قرآن کیلئے جن علوم کی ضرورت ھے‘ کوئی شخص ان کو حاصل کئے بغیر تفسیر کرنے بیٹھ جائے۔
دوم: کوئی شخص ان متشابھات کی تفسیر کرنے لگے جن کی مراد اللھ تعالیٰ کے سوا کوئی نھیں جانتا۔
سوم: غلط مذھب کو ثابت کرنے کے لئے تفسیر کرنا۔ یعنی کوئی شخص اپنے مذھب فاسد کو تو اصل بنائے اور تفسیر کو اس کے تابع کرے اور جس طرح بھی ممکن ھو کھینچ تان کر قرآن کریم کو اپنے مذھب پرچسپاں کرے۔
چھارم: بغیر دلیل کے کسی آیت کے بارے میں یھ دعویٰ کرنا کھ اس سے اللھ تعالیٰ کی قطعی مراد یھ ھے۔
پنجم: محض اپنی خواھش وپسند کے مطابق تفسیر کرنا۔ (الاتقان: ص ۱۸۳ جلد دوم)
تحریف معنوی
خلاصھ یھ کھ یھ تمام صورتیں تفسیر بالرائے کے تحت داخل ھیں‘ ھمارے زمانے میں قادیانی‘ پرویزی وغیرھ دیگر گمراھ اورکجرو فرقوں کی تفسیروں کا یھی حال ھے‘ ان کی تفسیر بالرائے سے بڑھ کر قرآن کریم کی کھلی کھلی تحریف معنوی ھے‘ چنانچھ قرآن کریم کی آڑ لے کر قطعیات دین کا انکار کیا جاتا ھے، آنحضرت ا کی سنت متواترھ کو پس پشت ڈالا جاتاھے‘ اسلام کے قطعی واجماعی عقائد کو جھٹلایاجاتاھے۔
چودھ سو سالھ اکابر امت کے اجماع مسلسل سے (جس کو قرآن کریم نے ”سبیل المؤمنین“ فرمایا ھے) انحراف کیا جاتاھے اور لغت وزبان کے قواعد سے آزاد ھوکر قرآن کریم کو جاھلانھ تحریفات کا تختھٴ مشق بنایا جاتاھے ضروری تھا کھ ایسی تحریفات کی بھی چند مثالیں ذکر کردی جاتیں‘ لیکن افسوس ! کھ اس مختصر مضمون میں اس کی گنجائش نھیں۔
ترجمھ قرآن کے آداب
قرآن کریم کا ترجمھ بھی تفسیر وترجمانی ھی کی ایک صورت ھے‘ اس لئے ترجمھ قرآن میں بھی مندرجھ بالا اصول کا لحاظ رکھنا اشد ضروری ھے‘ بلکھ واقعھ یھ ھے کھ قرآن کریم کا صحیح ترجمھ کرنا اس کی تفسیر سے بھی مشکل اور نازک کام ھے‘ اس لئے اس میں حزم واحتیاط کی ضرورت اور بھی زیادھ ھے ‘ ترجمھ کرتے وقت قرآن کریم کے الفاظ واسلوب کی رعایت رکھنا چاھئے اور یھ ایسی مشکل اور دشوار گذار گھاٹی ھے کھ اچھے اچھے لوگ اس میں لڑکھڑا جاتے ھیں‘ یھاں مؤرخ اسلام سید الملة والدین علامھ سید سلیمان ندوی رحمھ اللھ کا اقتباس نقل کرتاھوں جو مولانا قاضی محمد زاھد الحسینی مدظلھ نے ”معارف القرآن“ میں ماھنامھ ”العلم“ کراچی کے حوالے سے نقل کیا ھے‘ سید صاحب لکھتے ھیں:
”اس سلسلے میں مجھے دو باتیں کھنی ھیں‘ ایک تو یھ کھ قرآن پاک کے ترجمے میں بے احتیاطی کو کام میں نھ لایاجائے‘ یھ تحریف ھے اور جس کی سزا کا حال معلوم ھے‘ ترجمھ بالکل لفظی کرنا چاھئے‘ پھر آپ اس کی تشریح اپنے ضروری مطلب کے ساتھ کرسکتے ھیں‘ یھ کسی طرح درست نھیں کھ ترجمھ میں الفاظ کی رعایت کے بغیراپنے مطلوب کے مطابق کوشش کی جائے‘ یھ شدید تحریف ھے۔ آپ دیکھیں گے کھ پھر کسی دوسری ضرورت کے وقت آپ کو اس آیت کا دوسرا ترجمھ دوسرے ڈھنگ سے کرنا پڑے گا‘ اس وقت آپ پر یھ ثابت ھوجائے گا کھ ھم نے اتباع ھویٰ کا دانستھ ارتکاب کیا‘ دوسری چیز یھ ھے کھ جمھور اسلام جس مسئلھ پر اعتقادی وعملی طور پر متفق ھوں‘ ان کو چھوڑ کر تحقیق کی نئی راھ اختیار نھ کی جائے‘ یھ طریق تواتر وتوارث کی بیخ کنی کے مترادف ھے‘ اس گناھ کا مرتکب کبھی میں خود ھوچکا ھوں اور اس کی اعتقادی وعملی سزا بھگت چکا ھوں‘ اس لئے دل سے چاھتاھوں کھ اب میرے عزیزوں اور دوستوں میں سے کوئی اس راھ سے نھ نکلے‘ تاکھ وھ اس سزا سے محفوظ رھے جو ان سے پھلوں کو مل چکی“۔(معارف القرآن ص:۴۶ از مولانا قاضی زاھد الحسینی بحوالھ ماھنامھ العلم کراچی جنوری تا مارچ ۱۹۵۹ء)
چند مفید تفاسیر
تفسیر کے موضوع پر ان مختصر اشارات کو ختم کرتے ھوئے مناسب معلوم ھوتا ھے کھ چند مفید اور آسان تفاسیر کی طرف راھنمائی کردی جائے۔
۱- معارف القرآن: (آٹھ جلدوں میں) از مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی‘ اس میں قرآن کریم کے متن کے ساتھ حضرت شیخ الھند کا ترجمھ ھے اور خلاصھ تفسیر حضرت حکیم الامت تھانوی کی بیان القرآن سے ماخوذ ھے اور پھر ”معارف ومسائل“ کے عنوان سے ضروری تشریحات ونکات اور مسائل ذکر کئے جاتے ھیں۔ ھمارے دور کی یھ مفید ترین تفسیر ھے۔
۲- معارف القرآن: از مولانا محمد ادریس کاندھلوی محدثانھ انداز کی یھ بھترین تفسیر ھے‘ متن قرآن کے ساتھ شاھ عبد القادرمحدث دھلوی کا ترجمھ ھے۔ تفسیر میں بیان القرآن کی پیروی کی گئی ھے اور حدیثی‘ کلامی‘ فقھی اور تاریخی فوائد کا گراں قدر اضافھ کیا گیا ھے‘ حضرت مولانا رحمھ اللھ اس کی تکمیل نھیں فرما سکے تھے‘ ان کے صاحبزادھ گرامی حضرت مولانا محمد مالک کاندھلوی شیخ الحدیث جامعھ اشرفیھ لاھور نے اس کی تکمیل فرمائی ھے۔
۳- فوائد عثمانی بر ترجمھ شیخ الھند: حضرت شیخ :الھند مولانا محمود حسن دیوبندی قدس سرھ نے حضرت شاھ عبد القادر محدث دھلوی کے ترجمھ کو جدید قالب میں ڈھالاتھا اور سورھٴ بقرھ اور سورة النساء کے فوائد بھی تحریر فرمائے تھے‘ بقیھ فوائد حضرت شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی نے تحریر فرمائے‘ یھ تفسیر ایک ادبی شاھکار ھے اور قرآن فھمی کے لئے کلید کا حکم رکھتی ھے۔
۴- تفسیر کشف الرحمن: از سحبان الھند مولانا احمد سعید دھلوی اس تفسیر میں بھی ترجمھ اور سیر کے لئے حضرت شاھ عبد القادر کی تفسیر موضح القرآن کو بنیاد بنایاگیا ھے اور قرآنی مفاھیم کو دھلی کی ٹکسالی زبان میں کیا گیاھے۔
وآخر دعوانا ان الحمد للھ رب العالمین
No comments:
Post a Comment
Plz turn of your sound volume bcoz there is music behind this video