سوال
۱۔ معیار حق کی تعریف و تشریح کیجئے۔
۲۔کیا صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین معیار حق ہیں؟ اگر معیار حق ہیں تو ان کے درمیان جو اختلاف آتاہے اس وقت ایک رائے کو لینے اور دوسری رائے کو چھوڑنے سے کیامعیار حق پر اثر نہیں پڑے گا؟
۳۔کیا رضاء الہٰی کی وجہ سے گناہوں سے حفاظت ہوتی ہے جیسا کہ عصمت سے ہوتی ہے؟
۴۔کیا صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین پر تنقید کرنا جائزہے؟ اگر ہے تو کسی نے کسی صحابی پر تنقید کی ہے؟
۵۔اگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر تنقید جائز سمجھی جائے توکیا اس آیت کریمہ پر اثر نہیں پڑے گا؟
”واعلموا أن فیکم رسول اللّٰہ لو یطیعکم فی کثیر من الأمر لعنتم ولکن الله حبب الیکم الإیمان وزیّنہ فی قلوبکم وکرّہ الیکم الکفر والفسوق والعصیان“۔ آلایة (الحجرات :۷)
۶۔کیا ایسی بھی کوئی جگہ ہے کہ صحابہ کی رائے ہوتے ہوئے کسی نے اپنی رائے پر عمل کیا ہو اور صحابی کی رائے کو چھوڑ دیا ہو۔؟
جواب
۱۔معیار حق کوئی قرآنی یا حدیثی، فقہی اصطلاح نہیں،ایک خاص مفہوم کے پیش نظر ادبی وانشائی طور پر یہ لفظ استعمال کیا گیاہے۔
”کل یوٴخذ من قولہ و یترک إلا صاحب ھذا القبر صلی الله علیہ وسلم“۔
جیسا کہ امام مالک کا مقولہ ہے۔ اس مفہوم کو ادا کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ لیکن اس کو جس مفہوم میں استعمال کرنے کے بعد اس سے جو نتائج نکالے جارہے ہیں۔ اکثر صحیح نہیں ہے۔
۲۔سنت اور بدعت کے درمیان بنیادی فرق یہی ہے، کہ جو عہد نبوت اور عہد خلافت راشدہ وعہد صحابہ میں دین کا جزو نہ بن سکا۔ (۱)
اس لئے احادیث میں سنت نبویہ اور سنت خلفاء راشدین کے تمسک کا حکم دیا گیا
(۲)اور صحابہ کے بارے میں تصریح فرمادی گئی کہ جو دین کا کام وہ کریں گے وہ غلط نہیں ہوسکتا وہ بدعت نہ ہوگی۔ اگر اختلاف پایا جائے تو ان میں سے کسی کو بھی اختیار کیا جائے توخروج عن الدین نہ ہوگا۔ (۳)اور اگر سب متفق ہوگئے تو صورت اجماع کی ہوجاتی ہے، اتباع اس کی فرض ہوجاتی ہے اب کوئی شخص یہ کہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین معیار حق نہیں ہیں، صرف آنحضرت صلی الله علیہ وسلم معیار حق ہیں تو اس کا حاصل یہ نکلتا ہے کہ اگر حدیث نبوی موجود نہیں تو تعامل صحابہ یا سنت صحابہ حجت نہیں یہ کتنی غلط بات ہوگی اور اس پر مستزاد یہ بھی کہا جائے کہ کبھی کبھی انبیاء سے بتقاضائے شریعت ایسی بات ظہو رمیں آسکتی ہے جو عصمت کے خلاف ہو تو بات انتہائی خطرناک صورت اختیار کرلیتی ہے ،گویا نبی باوجود عصمت کے احیاناً غیر معصوم ہوسکتاہے اس طرح عصمت سے بھی امان اُٹھ جاتاہے، ہر وقت یہ احتمال قائم رہتاہے، کہ اس وقت شاید وہ غیر معصومانہ حالت ہو۔
۳۔رضاء الہٰی سے اتنی بات ضرور ثابت ہوجاتی ہے کہ صحابی سے کوئی بات ایسی ظاہر نہیں ہوسکتی ہے جو نجات کے منافی ہو اگر کوئی شخص غیر معصوم بھی ہو تو یہ کیا ضروری ہے کہ وہ ضرور اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف کام کرے گا؟ اور گناہ بھی کرے گا؟ بہت سے صالحین امت غیر معصوم ہیں، لیکن اس کے باوجود ان سے کوئی گناہ نہیں ہوتا۔ عصمت سے گناہ کا صدور ہو نہیں سکتا، رضاء کا ثمرہ یہ ہے کہ گناہ ہوتا نہیں اگر چہ ناممکن نہ ہونے کا امکان ہے۔ لیکن کسی چیز کے امکان کے لئے کیا یہ ضروری ہے کہ واقع ہوجائے۔ بہرحال اس کو محفوظ کہیں یا اور کوئی لفظ اس حقیقت کو ظاہر کرے۔
۴۔صحابہ ہماری تنقید سے بالا تر ہیں۔”الله، الله فی اصحابی لا تتخذوھم غرضاً من بعدی“…الخ وغیرہ احادیث میں تصریح ہے۔(۴)
۵۔جواب نمبر۴ سے جواب معلوم ہوگیا تنقید جائز نہیں۔
۶۔بظاہر اس کی نظیر اختلافات ائمہ میں نہیں ملے گی، کہ حدیث میں کوئی تصریح نہ ہو، اور پھر صحابہ میں ان کا تعامل موجود ہو، اس کو ترک کردیا جائے، اور صرف اپنی رائے سے کام لیا جائے، البتہ اس کے نظائر بہت ہیں ،کہ صحابہ میں آراء کااختلاف رہا‘ان میں کسی ایک کو ترک کیا گیا ،اور دوسرے کو اختیار کیا گیا۔اس وقت بہت عجلت میں یہ چند سطریں لکھ سکا، مزید تفصیل و دلائل کی اس وقت فرصت نہیں۔
فقط والله اعلم
بینات -ذوالقعدہ۱۳۸۵ھ مطابق مارچ ۱۹۶۶ء
جلد : ۷ شمارہ:۵ ,ص: ۵۷، ۵۹
حوالہ جات
________________________________________________________________________
(۱) ”الابداع فی مضار الابتداع ،للشیخ علی محفوظ- طریقة ثانیة فی معنی البدعة“ -ص:۱۷، ط:المکتبة العلمیة بالمدینة المنورة۔الطبعة الخامسة۱۳۹۱ھمطابق ۱۹۷۱ء ولفظہ: ”ما احدث بعدہ صلی اللہ علیہ وسلم أو بعد القرون المشھود لھم بالخیرخیراً کان او شراً عبادةً او عادةًوھی مایراد بہ عرض دنیوی…الخ“۔
(۲) سنن الترمذی - ابواب المناقب- باب من سب اصحاب النبی -۲/۲۲۵․ط: ایچ ،ایم سعید کراچی ۱۹۸۸ء۔
(۳) مشکوةالمصابیح،باب الاعتصام بالکتاب والسنة ، الفصل الثانی ،عن العرباض بن ساریة … فعلیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین المھدیین-۱/۲۹،۳۰․ط: قدیمی کراچی ۱۳۶۸ھ۔
(۴)مشکوة المصابیح ،باب مناقب الصحابة ، الفصل الثانی،-۲/۵۵۴۔ط: قدیمی ۱۳۶۸ھ کراچی، وفیہ ایضاً۔عن عمر بن الخطاب رضی الله عنہ قال: سمعت رسول الله یقول: سألت ربی عن اختلاف اصحابی من بعدی فاوحی الی یا محمد! ان اصحابک عندی بمنزلة النجوم فی السماء بعضھا اقوی من بعض ولکل نور فمن اخذ بشئ مما ھم علیہ من اختلافھم فھو عندی علی ھدی
۱۔ معیار حق کی تعریف و تشریح کیجئے۔
۲۔کیا صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین معیار حق ہیں؟ اگر معیار حق ہیں تو ان کے درمیان جو اختلاف آتاہے اس وقت ایک رائے کو لینے اور دوسری رائے کو چھوڑنے سے کیامعیار حق پر اثر نہیں پڑے گا؟
۳۔کیا رضاء الہٰی کی وجہ سے گناہوں سے حفاظت ہوتی ہے جیسا کہ عصمت سے ہوتی ہے؟
۴۔کیا صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین پر تنقید کرنا جائزہے؟ اگر ہے تو کسی نے کسی صحابی پر تنقید کی ہے؟
۵۔اگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر تنقید جائز سمجھی جائے توکیا اس آیت کریمہ پر اثر نہیں پڑے گا؟
”واعلموا أن فیکم رسول اللّٰہ لو یطیعکم فی کثیر من الأمر لعنتم ولکن الله حبب الیکم الإیمان وزیّنہ فی قلوبکم وکرّہ الیکم الکفر والفسوق والعصیان“۔ آلایة (الحجرات :۷)
۶۔کیا ایسی بھی کوئی جگہ ہے کہ صحابہ کی رائے ہوتے ہوئے کسی نے اپنی رائے پر عمل کیا ہو اور صحابی کی رائے کو چھوڑ دیا ہو۔؟
جواب
۱۔معیار حق کوئی قرآنی یا حدیثی، فقہی اصطلاح نہیں،ایک خاص مفہوم کے پیش نظر ادبی وانشائی طور پر یہ لفظ استعمال کیا گیاہے۔
”کل یوٴخذ من قولہ و یترک إلا صاحب ھذا القبر صلی الله علیہ وسلم“۔
جیسا کہ امام مالک کا مقولہ ہے۔ اس مفہوم کو ادا کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ لیکن اس کو جس مفہوم میں استعمال کرنے کے بعد اس سے جو نتائج نکالے جارہے ہیں۔ اکثر صحیح نہیں ہے۔
۲۔سنت اور بدعت کے درمیان بنیادی فرق یہی ہے، کہ جو عہد نبوت اور عہد خلافت راشدہ وعہد صحابہ میں دین کا جزو نہ بن سکا۔ (۱)
اس لئے احادیث میں سنت نبویہ اور سنت خلفاء راشدین کے تمسک کا حکم دیا گیا
(۲)اور صحابہ کے بارے میں تصریح فرمادی گئی کہ جو دین کا کام وہ کریں گے وہ غلط نہیں ہوسکتا وہ بدعت نہ ہوگی۔ اگر اختلاف پایا جائے تو ان میں سے کسی کو بھی اختیار کیا جائے توخروج عن الدین نہ ہوگا۔ (۳)اور اگر سب متفق ہوگئے تو صورت اجماع کی ہوجاتی ہے، اتباع اس کی فرض ہوجاتی ہے اب کوئی شخص یہ کہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین معیار حق نہیں ہیں، صرف آنحضرت صلی الله علیہ وسلم معیار حق ہیں تو اس کا حاصل یہ نکلتا ہے کہ اگر حدیث نبوی موجود نہیں تو تعامل صحابہ یا سنت صحابہ حجت نہیں یہ کتنی غلط بات ہوگی اور اس پر مستزاد یہ بھی کہا جائے کہ کبھی کبھی انبیاء سے بتقاضائے شریعت ایسی بات ظہو رمیں آسکتی ہے جو عصمت کے خلاف ہو تو بات انتہائی خطرناک صورت اختیار کرلیتی ہے ،گویا نبی باوجود عصمت کے احیاناً غیر معصوم ہوسکتاہے اس طرح عصمت سے بھی امان اُٹھ جاتاہے، ہر وقت یہ احتمال قائم رہتاہے، کہ اس وقت شاید وہ غیر معصومانہ حالت ہو۔
۳۔رضاء الہٰی سے اتنی بات ضرور ثابت ہوجاتی ہے کہ صحابی سے کوئی بات ایسی ظاہر نہیں ہوسکتی ہے جو نجات کے منافی ہو اگر کوئی شخص غیر معصوم بھی ہو تو یہ کیا ضروری ہے کہ وہ ضرور اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف کام کرے گا؟ اور گناہ بھی کرے گا؟ بہت سے صالحین امت غیر معصوم ہیں، لیکن اس کے باوجود ان سے کوئی گناہ نہیں ہوتا۔ عصمت سے گناہ کا صدور ہو نہیں سکتا، رضاء کا ثمرہ یہ ہے کہ گناہ ہوتا نہیں اگر چہ ناممکن نہ ہونے کا امکان ہے۔ لیکن کسی چیز کے امکان کے لئے کیا یہ ضروری ہے کہ واقع ہوجائے۔ بہرحال اس کو محفوظ کہیں یا اور کوئی لفظ اس حقیقت کو ظاہر کرے۔
۴۔صحابہ ہماری تنقید سے بالا تر ہیں۔”الله، الله فی اصحابی لا تتخذوھم غرضاً من بعدی“…الخ وغیرہ احادیث میں تصریح ہے۔(۴)
۵۔جواب نمبر۴ سے جواب معلوم ہوگیا تنقید جائز نہیں۔
۶۔بظاہر اس کی نظیر اختلافات ائمہ میں نہیں ملے گی، کہ حدیث میں کوئی تصریح نہ ہو، اور پھر صحابہ میں ان کا تعامل موجود ہو، اس کو ترک کردیا جائے، اور صرف اپنی رائے سے کام لیا جائے، البتہ اس کے نظائر بہت ہیں ،کہ صحابہ میں آراء کااختلاف رہا‘ان میں کسی ایک کو ترک کیا گیا ،اور دوسرے کو اختیار کیا گیا۔اس وقت بہت عجلت میں یہ چند سطریں لکھ سکا، مزید تفصیل و دلائل کی اس وقت فرصت نہیں۔
فقط والله اعلم
بینات -ذوالقعدہ۱۳۸۵ھ مطابق مارچ ۱۹۶۶ء
جلد : ۷ شمارہ:۵ ,ص: ۵۷، ۵۹
حوالہ جات
________________________________________________________________________
(۱) ”الابداع فی مضار الابتداع ،للشیخ علی محفوظ- طریقة ثانیة فی معنی البدعة“ -ص:۱۷، ط:المکتبة العلمیة بالمدینة المنورة۔الطبعة الخامسة۱۳۹۱ھمطابق ۱۹۷۱ء ولفظہ: ”ما احدث بعدہ صلی اللہ علیہ وسلم أو بعد القرون المشھود لھم بالخیرخیراً کان او شراً عبادةً او عادةًوھی مایراد بہ عرض دنیوی…الخ“۔
(۲) سنن الترمذی - ابواب المناقب- باب من سب اصحاب النبی -۲/۲۲۵․ط: ایچ ،ایم سعید کراچی ۱۹۸۸ء۔
(۳) مشکوةالمصابیح،باب الاعتصام بالکتاب والسنة ، الفصل الثانی ،عن العرباض بن ساریة … فعلیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین المھدیین-۱/۲۹،۳۰․ط: قدیمی کراچی ۱۳۶۸ھ۔
(۴)مشکوة المصابیح ،باب مناقب الصحابة ، الفصل الثانی،-۲/۵۵۴۔ط: قدیمی ۱۳۶۸ھ کراچی، وفیہ ایضاً۔عن عمر بن الخطاب رضی الله عنہ قال: سمعت رسول الله یقول: سألت ربی عن اختلاف اصحابی من بعدی فاوحی الی یا محمد! ان اصحابک عندی بمنزلة النجوم فی السماء بعضھا اقوی من بعض ولکل نور فمن اخذ بشئ مما ھم علیہ من اختلافھم فھو عندی علی ھدی
No comments:
Post a Comment
Plz turn of your sound volume bcoz there is music behind this video