سید صلاح الدین
حالت حیض میں نمازودیگر عبادات کا حکم
کیا فرماتے ھیں علمأ کرام ومفتیانِ عظام اس مسئلھ میں کھ:
ایامِ حیض ونفاس میں عورت کے لئے نماز پڑھنا جائز ھے یا نھیں؟ ایک عورت قرآن پاک کا درس دیتی ھے اور وھ ایامِ حیض میں خود بھی نماز پڑھتی ھے اوردوسری عورتوں کو بھی ان ایام میں نماز پڑھنے کا کھتی ھے اور نماز پڑھواتی ھے اور یھ کھتی ھے کھ: حالتِ حیض ونفاس میں نماز نھ پڑھنے کا ثبوت قرآن میں نھیں ملتا۔ ھاں حدیث سے ثابت ھے‘ لیکن میں تو قرآن پاک کے حکم سے پڑھوں گی‘ میں نے کافی مفتیانِ عظام سے فتویٰ بھی لیا ھے‘ اس فتویٰ کے روسے پڑھوں گی‘ اور اب تو اس حالت میں حرم شریف بھی جاؤں گی۔ اس کا ساتواں حج ھے۔ اس کے بیان سے متاثر ھوکر کافی عورتیں حالتِ حیض ونفاس میں نماز پڑھنے لگ گئی ھیں اوراس حالت میں قرآن شریف کی تلاوت بھی کرتی ھیں‘ اب آپ مفتیان کرام سے مؤدبانھ التماس ھے کھ اس کے بارے میں آپ حضرات کا شریعت کی روشنی میں کیا فرمان ھے؟
والسلام۔
المستفتیھ: ام عبد اللھ‘ ابوھریرھ مسجد‘ گارڈن‘ کراچی
الجواب باسمھ تعالیٰ
واضح رھے کھ ایامِ حیض میں عورت کے لئے نماز پڑھنا شرعاً ناجائز ھے‘ یھی مذھب تمام صحابھ کرام‘ تابعین‘ تبع تابعین اور ائمھ مجتھدین کا ھے۔ اس بارے میں دلائل ملاحظھ ھوں:
۱-”عن ابی سعید الخدری قال: خرج رسول اللھ ا فی اضحیٰ او فطر الی المصلی‘ فمر علی النساء‘ فقال: یا معشر النساء! تصدقن‘ فانی اریتکن اکثر اھل النار‘ فقلن وبم؟ یا رسول اللھ! قال تکثرن اللعن‘وتکفرن العشیر ما رأیت من ناقصات عقل و دین اذھب للب الرجل الحاذم من احدکن‘ قلن وما نقصان دیننا وعقلنا یا رسول اللھ؟ قال الیس شھادة المرأة مثل نصف شھادة الرجل‘ قلن بلیٰ! قال فذالک من نقصان عقلھا۔ الیس اذا حاضت لم تصل ولم تصم‘ قلن: بلیٰ‘ قال:فذلک من نقصان دینھا“۔ (صحیح بخاری ج:۱‘ ص:۴۴)
ترجمھ:․․حضرت․ابوسعید خدری راوی ھیں کھ رسول اللھ ا عید الفطر یا عید الاضحیٰ کی نماز کے لئے عیدگاھ تشریف لے گئے تو آپ کا گزر عورتوں کی ایک جماعت کے پاس سے ھوا‘ آپ ا نے ان کو مخاطب کرکے فرمایا : اے عورتوں کی جماعت! تم صدقھ وخیرات کرو‘ کیونکھ میں نے تم عورتوں کی اکثریت کو دوزخ میں دیکھا ھے (یھ سن کر) عورتوں نے کھا: یا رسول اللھ! اس کا سبب؟ آنحضرت ا نے فرمایا کھ: تم لعن طعن بھت کرتی ھو اور اپنے شوھروں کی نافرمانی وناشکری کرتی رھتی ھو‘ اور میں نے عقل ودین میں کمزور ھونے کے باوجود ھوشیار مرد کو بے وقوف بنا دینے میں تم سے بڑھ کر کسی کو نھیں دیکھا (یھ سن کر) عورتوں نے عرض کیا: یا رسول اللھ! ھماری عقل اور ھمارے دین میں کمی کیسے ھے؟ آپ ا نے فرمایا: کیاایک عورت کی گواھی مرد کی گواھی کے نصف نھیں؟ (یعنی کیا ایسا نھیں ھے کھ شریعت میں دو عورتوں کی گواھی ایک مرد کی گواھی کے برابر سمجھی جاتی ھے) ان عورتوں نے کھا‘ جی ھاں! ایسا ھی ھے۔ آپ ا نے فرمایا: یھی ان کی عقل کی کمزوری کی دلیل ھے ۔ (آپ ا نے فرمایا) کیا ایسا نھیں ھے کھ عورت جب حیض کی حالت میں ھوتی ھے نھ تو نماز پڑھتی ھے اور نھ ھی روزھ رکھتی ھے؟ ان عورتوں نے کھا : جی ھاں! ایسا ھی ھے‘ آپ انے فرمایا: یھ ان کے دین میں ناقص ھونے کی دلیل ھے“۔
۲- ”عن عائشة انھا قالت فاطمة بنت ابی حبیش لرسول اللھ ا یا رسول اللھ! انی لا اطھر افادع الصلوة؟ فقال رسول اللھ ا! انما ذلک عرق ولیس بالحیضة‘ فاذا اقبلت الحیضة فاترکی الصلوة‘ فاذا ذھب قدرھا فاغسلی عنکِ الدم وصلی“۔ (صحیح بخاری ج:۱‘ ص:۴۴)
ترجمھ:․․․ حضرت عائشھ صدیقھ راویھ ھیں کھ فاطمھ بنت ابی حبیش نبی کریم ا کی خدمت اقدس میں حاضر ھوئیں اور عرض کیا : یا رسول اللھ!( میں ایک ایسی عورت ھوں جسے برابر بیماری کا خون آتا رھتاھے چنانچھ میں) کسی وقت پاک نھیں رھتی تو کیا میں نماز چھوڑد وں؟ آنحضرت ا نے فرمایا: نھیں۔ یھ تو ایک رگ سے خون بھتا ھے‘ حیض نھیں ‘ (جوکھ رِحم سے آتاھے)جب تجھے حیض آنے لگے تو نماز چھوڑ دو اور جب حیض ختم ھوجائے تو جسم سے خون کو دھو ڈالو اور نھاکر نماز پڑھ لو“۔
۳- ”عن معاذة قالت: سالت عائشة ‘ فقلت: ما بال الحائض تقضی الصوم ولاتقضی الصلوة؟ فقالت: احروریة انتِ؟ فقلت: لست بحروریة‘ ولکن اسئل۔ قالت: کان یصیبنا ذلک فنومر بقضاء الصوم ولانومر بقضاء الصلوة“۔ (صحیح مسلم ج:۱‘ ص:۱۵۳)
ترجمھ:۔حضرت معاذھ سے روایت ھے کھ میں نے حضرت عائشھ سے پوچھا : کیا وجھ ھے کھ حائضھ عورت روزوں کی قضا کرتی ھے اور نماز کی قضا نھیں کرتی؟ حضرت عائشھ نے فرمایا: کیا تو حروریھ (خوارج سے) ھے؟ میں نے کھا: میں تو حروریھ نھیں ھوں‘ بلکھ جاننا چاھتی ھوں۔ حضرت عائشھ نے فرمایا: ھمیں حیض آتا تو ھمیں روزوں کی قضا کا حکم دیا جاتا اور نماز کی قضا کا حکم نھیں دیا جاتاتھا“۔
ان تمام احادیث سے صاف معلوم ھوتاھے کھ ایام حیض میں نماز معاف ھے‘ چونکھ آپ ا وحی الٰھی کے مخاطب ‘ احکام خداوندی کے تعمیل کنندھ اور مطیع وفرمانبردار تھے‘ اللھ تعالیٰ نے آپ ا کو لوگوں کے لئے نمونھ بناکر مبعوث فرمایا‘ آپ ا وحی الٰھی کے منشأ ومراد سمجھنے اور سمجھانے والے تھے‘ اس لئے آپ ا کی اطاعت‘ عین خدا تعالیٰ کی اطاعت ھے۔ آپ ا کا ھر ایک حکم دین کے معاملھ میں ایسا ھی واجب التعمیل اور ضروری ھے‘ جیساکھ خداوند تعالیٰ کا حکم واجب التعمیل اور ضروری ھے۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر جناب رسول اللھ ا کی اطاعت اور اتباع کا حکم اور آپ ا کی نافرمانی سے منع کیاگیا ھے۔ چنانچھ ارشاد الٰھی ھے:
”من یطع الرسول فقد اطاع اللھ“۔ (النساء:۱۱)
ترجمھ:- ”جس نے حکم مانا رسول کا‘ اس نے حکم مانا اللھ کا“۔
دوسری جگھ ارشاد ھے:
”قل ان کنتم تحبون اللھ فاتبعونی یحببکم اللھ“۔ (آل عمران: ۴)
ترجمھ:-”تو کھھ اگر تم محبت رکھتے ھو اللھ کی تو میری راھ چلو تاکھ محبت کرے تم سے اللھ“۔
اور ایک جگھ یوں فرمایا:
”ما آتاکم الرسول فخذوھ وما نھاکم عنھ فانتھو“ (الحشر:۷)
ترجمھ:-”اور جودے تم کو رسول سو لے لو اور جس سے منع کرے سو چھوڑ دو“۔
پروردگار عالم نے قرآن کریم میں قسم اٹھا کر یھ حکم بیان کیا ھے کھ تیرے رب کی (یعنی مجھے اپنی ذات کی) قسم کھ یھ لوگ اس وقت تک مؤمن نھیں ھوسکتے تاوقتیکھ آپ کو ھربات اور ھرمعاملھ میں اپنا فیصل اور حکم تسلیم نھ کریں اور پھر دل میں ذرھ بھر تنگی محسوس نھ کریں اور آپ کے حکم کے سامنے گردن تسلیم خم نھ کردیں‘جیساکھ ارشاد ھے:
”فلا وربک لایؤمنون حتی یحکموک الخ“ ۔(النساء:۶۵)
قرآن کریم میں آپ ا کی اطاعت اور اتباع کو امت کے لئے جس طرح لازم اور ضروری قرار دیا گیا ھے‘ اسی طرح خود آنحضرت ا نے بھی واضح الفاظ میں یھ ارشاد فرمایا ھے کھ:
”لایؤمن احدکم حتی یکون ھواھ تبعالما جئت بھ“ ۔ (مشکوٰة:ص:۳۰)
ترجمھ:۔”تم میں سے کوئی شخص مؤمن نھیں ھوسکتا تا وقتیکھ اس کی خواھش اس دین کے تابع نھ ھو جائے جو میں لے کر آیاھوں“۔
بھرحال گذشتھ تفصیل سے معلوم ھوا کھ حضورا کے واضح ارشادات اس کے متعلق موجود ھیں اور یھ بھی معلوم ھوا کھ صحابھ کرام کے نزدیک یھ مسئلھ بالکل واضح تھا‘ اس کے ساتھ اگر فقھأ کرام اور مجتھدین کے اقوال ومذاھب کا جائزھ لیں تو دنیا میں کسی بھی فقیھ کا اس مسئلے میں کوئی اختلاف نظر نھیں آتا اور سب کے سب اس بات پر متفق ھیں کھ حیض کی حالت میں عورت نماز نھ پڑھے اور یھ ایک ایسا اجماع ھے جو یقینی اور پختھ ھے۔
امام ابن منذر لکھتے ھیں:
”اجمعوا علی ان الحائض لاصلوة علیھا فی ایام حیضتھا فیجب علیھا القضاء“۔ (الاجماع ص:۳۲)
ترجمھ:-”فقھأ کا اس پر اجماع ھے کھ حائضھ پر ایام حیض میں نماز نھیں کھ جس کی بنا پر اس پر (نماز کی) قضا ھو“۔
موسوعة الاجماع میں ھے:
”اجمع المسلمون علی انھ یحرم علی الحائض والنفساء فی حال حیضھا الصلوة فرضھا ونفلھا وھذا الاجماع متیقن“ (ج:۲‘ص:۶۳۲)
ترجمھ:-”مسلمانوں کا اس پر اجماع ھے کھ حائضھ اور نفاس والی عورت پر حالت حیض (اورنفاس) میں فرض‘ نفل ھرقسم کی نماز حرام ھے اور یھ اجماع یقینی ھے“۔
حافظ ابن عبد البر لکھتے ھیں:
”وھذا اجماع من علمأ المسلمین نقلتھ الکافة کما نقلتھ الاحاد العدول ولامخالف فیھ الاطوائف من الخوارج‘ یرون علی الحائض الصلوة‘ اما علمأ السلف والخلف واھل الفتوی فکلھم علی ان الحائض لاتصلی ولاتقضی الصلوة ایام حیضھا“۔ (الاستذکار‘ ص:۲۳۸)
ترجمھ:۔”اور یھ علمأ مسلمین کا اجماع ھے جس کو بھت بڑی جماعت نے نقل کیا ھے ․․․ اور اس میں کسی کا اختلاف نھیں‘ سوائے خارجی ٹولھ کے۔ وھ کھتے ھیں کھ حائضھ پر نماز ھے۔ رھے علمأ سلف وخلف اور اھل فتویٰ سب کا یھی قول ھے کھ حائضھ نماز نھ پڑھے اور نھ حیض کی دنوں کی نماز قضاء کرے“۔
”عن معمر عن الزھری قال: الحائض تقضی الصوم ولاتقضی الصلوة قلت عمن؟ قال: اجتمع الناس علیھ ولیس فی کل شئ تجد الاسناد“۔ ( حوالھ بالا‘ج:۱‘ ص:۳۳۹)
ترجمھ:۔”حضرت معمر راوی ھیں کھ امام زھری نے کھا: حائضھ روزے کی قضاء کرے اور نماز کی قضا نھ کرے۔ میں نے کھا: کیا وجھ ھے؟ امام زھری نے کھا لوگوں کا اس پر اجماع ھے ․․․․“۔
امام نووی صحیح مسلم کے حاشیھ میں لکھتے ھیں:
”وھذا نھی لھا عن الصلوة فی زمن الحیض وھو نھی تحریم‘ ویقتضی فساد الصلوة ھنا باجماع المسلمین‘ وسواء فی ھذا الصلوة المفروضة والنافلة‘ لظاھر الحدیث‘ وکذلک یحرم علیھا الطواف‘ وصلوة الجنازة‘ وسجود التلاوة‘ وسجود الشکر‘ وکل ھذا متفق علیھ‘ وقد اجمع العلماء علی انھا لیست مکلفة بالصلوة‘ وعلی انھ لاقضاء علیھا“۔ (صحیح مسلم ج:۱‘ ص:۱۵۲)
ترجمھ:۔”اور یھ نھی ھے عورت کے لئے زمانھ حیض میں نماز سے‘ اور یھ نھی تحریمی ھے۔ اور مسلمانوں کا اجماع تقاضا کرتاھے حائضھ عورتوں کے لئے فساد صلوة کا ‘ حدیث کی بنا پر۔ اس حکم میں نماز فرض اور نفل برابر ھے اسی طرح ان حائضھ عورتوں پر بیت اللھ کا طواف‘ نماز جنازھ‘ سجدھ تلاوت اور سجدھ شکر حرام ھے‘ اور ھر ایک کا یھ حکم اتفاقی ھے‘ اور علمأ کا اس پر اجماع ھے کھ حائضھ نماز کی مکلف نھیں‘ اور اس پر بھی اجماع ھے کھ حائضھ پر نماز کی قضاء نھیں“۔
جب اس مسئلھ پر تمام ائمھ وفقھأ کا اجماع ھے اوراجماع سے ثابت ھونے والا حکم قطعی ھوتا ھے تو اس حکم پر عمل کرنا لازم اور ضروری ھے۔ کشف الاسرار میں ھے:
”الاصل فی الاجماع ان یکون موجبا للحکم کالکتاب والسنة“۔ (کشف الاسرار ص:۳۷۲)
ترجمھ:۔” اجماع میں اصل یھ ھے کھ وھ کتاب وسنت کی طرح حکم کو واجب کرتاھے“
”ان یثبت المراد بھ حکما شرعیا علی سبیل التیقن“۔ (الکافی شرح البزدوی ص:۱۶۱)
ترجمھ:۔”اجماع سے حکم شرعی کی مراد یقینی طور ثابت ھوتی ھے“۔
لھذا جب اس بات پر اجماع ھے کھ حیض کی حالت میں عورت پر نماز نھیں اور یھ بھی معلوم ھوا کھ اجماع سے حکم قطعی ثابت ھوتاھے ‘جس کی مخالفت ھرگز جائز نھیں اور اجماع کو جھٹلاناگویا دین کے ایک حصھ کوباطل کرنا ھے‘ تو اب موصوفھ کو اس پر غور کرنا چاھئے کھ وھ آیات قرآنی‘ احادیث رسول اللھ اور اجماع کی مخالفت کرکے حیض کی حالت میں نماز پڑھنے کوجائز اور ضروری سمجھ کر کھاں کھڑی ھے ؟ کیا موصوفھ نے احادیث رسول اللھ کا انکار اور خارجیوں کی طرح ”حسبنا کتاب اللھ“ کا نعرھ لگاکر مسلمانوں سے خروج کرکے منکرین حدیث اور خارجیوں میں شامل ھونے کا اعلان نھیں کردیا؟
یاد رھے کھ مذھبی لحاظ سے سطح ارضی پر اگرچھ بے شمار فتنے رونما ھوئے ھیں اورحضور ا کی پیش گوئی کے مطابق قیامت تک رونما ھوتے رھیں گے‘ لیکن فتنھ ”انکار حدیث“ اپنی نوعیت کا ایک انوکھا فتنھ ھے‘ کیونکھ باقی فتنوں سے توصرف شجرھ اسلام کے برگ وبار کوھی نقصان پھنچتاھے ‘لیکن اس فتنے سے شجرھ اسلام کی جڑیں اور بنیادیں ھی کھو کھلی ھوکر رھ جاتی ھیں اور اسلام کا کوئی بدیھی مسئلھ بھی اپنا وجود برقرار نھیں رکھ سکتا‘ اس عظیم فتنے سے عقائد واعمال‘ اخلاق ومعاملات‘ معیشت ومعاشرت اور دنیا وآخرت کا کوئی مسئلھ بھی محفوظ نھیں رھ سکتا‘ حتی کھ قرآن کریم کی تفسیر وتشریح کچھ سے کچھ ھوکر رھ جاتی ھے۔ آج کل قرآن کا نام اس لئے استعمال کیا جاتاھے تاکھ حدیث کا انکار کیا جائے‘ جبکھ حقیقت یھ ھے کھ قرآن کو حدیث کی تشریح کے بغیر سمجھنا ممکن نھیں‘ قرآن کا خدائی کتاب ھونا خود حدیث سے ثابت ھے‘ اگر حدیث پر ایمان نھ ھو تو قرآن کریم پر ایمان معتبر نھیں ھوسکتا‘ قرآن کریم تشریح اور فصاحت میں بھی حدیث کا محتاج ھے‘ قرآن کریم کی تشریح کرنا‘ نبی کریم ا کی ذمھ داری ھے‘ بسا اوقات قرآن کریم کے ایک لفظ سے کئی کئی معانی نکلتے ھیں‘ لیکن کون سا معنیٰ ومطلب مراد لینا درست ھے؟ یھ حدیث سے ھی معلوم ھوتاھے۔
حضرت علی نے حضرت ابن عباس کو خوارج کے ساتھ مناظرے کے لئے جب بھیجا تو بھیجتے وقت یھ تاکید کی کھ خوارج کے سامنے قرآن کریم کو بطور دلیل پیش مت کرنا‘حضرت ابن عباس نے حیرت سے پوچھا کھ مجھے نبی کریم ا نے یھ دعا دی ھے ”اللھم فقھھ فی الدین وعلمھ التاویل“ حضور ا کی دعا کی برکت سے مجھے قرآن کا علم حاصل ھے تو پھر میں کیوں نھ ان کے سامنے قرآن کریم کو بطور دلیل پیش کروں؟ حضرت علی نے جواب دیا کھ: قرآن کریم کے ایک ایک لفظ کے بھت سے معانی نکلتے ھیں‘ تم قرآن کریم پڑھو گے اور جواب میں خوارج بھی قرآن کریم پڑھیں گے تم ایک معنی مراد لو گے‘ خوارج اسی آیت سے دوسرا مطلب نکالیں گے‘ اس طرح حق واضح نھیں ھوگا‘ اس لئے ان کے سامنے سنت کو پیش کرنا‘ کیونکھ سنت میں کوئی ابھام نھیں‘ سنت سے غلط معنی مراد نھیں لیا جاسکتا۔ حضرت عمر کا ارشاد گرامی ھے کھ:
”و انھ سیاتی ناس یجادلونکم بشبھات القرآن فخذوھم بالسنن فان اصحاب السنن اعلم بکتاب اللھ“۔ (مسند دارمی‘ج:۲‘ ص:۴۷)
ترجمھ:۔” عنقریب کچھ لوگ تم سے جھگڑا کریں گے اور قرآن کا نام لے کر شکوک وشبھات پیدا کریں گے‘ ان کا علاج یھ ھے کھ ان کو حضور ا کی سنتوں سے پکڑو‘ کیونکھ سنت وحدیث کا علم رکھنے والے ھی اللھ تعالیٰ کی کتاب کو صحیح سمجھنے والے ھیں“:
یھ حقیقت ھے کھ آج کل قرآن کریم کا نام لے کر سادھ لوح مسلمانوں کو دین سے دور کیا جارھاھے‘ آج کل مسلمان بھت جلد فتنوں کا شکار ھوجاتے ھیں‘ قرآن کریم کا نام سنتے ھیں فوراً متاثر ھوجاتے ھیں‘ حالانکھ ھر فتنھ اپنی تائید میں قرآن کریم کوبطور دلیل پیش کرتاھے‘ اسلام کی چودھ سو سالھ تاریخ آپ کو ایسے فتنوں سے پُرنظر آئے گی‘ خوارج قرآن مجید کی آیت ”ان الحکم الا للھ“ (یوسف:۴۰) اور ”للھ الامر من قبل ومن بعد“ (الروم:۴)پڑھ کر سیدنا حضرت علی کے مقابلے کے لئے نکلے تھے‘ خود حضور ا کا ارشاد ھے:
” عنقریب ایسے لوگ ظاھر ھوں گے جو تم سے زیادھ عبادت گزار ھوں گے‘ قرآن کریم بھی تم سے زیادھ پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے گلے سے نیچے اترکر ان پر اثر نھیں کرے گا“۔
ھم مسلمان اتنی جلدی کیوں بھول جاتے ھیں‘ دین کے بارے میں ھمارا حافظھ اتنا کمزور کیوں ھے؟ حالانکھ حضور ا کا ارشاد ھے کھ: مؤمن ایک سوراخ سے دوبار نھیں ڈسا جاسکتا‘ ھم ھزار بار ڈسے جاچکے ھیں‘ پھر بھی ھمیں ھوش نھیں‘ کیاابھی کل کی بات نھیں؟ کھ ”مرزاغلام احمد قادیانی“ قرآن کریم کی آیت
”ولکن رسول اللھ وخاتم النبیین“ (الاحزاب:۴۰)
پڑھ کر اپنے آپ کو نبی کھتا تھا‘ کیا قرآن کریم پڑھنے سے قادیانی برحق ھوگئے؟ کیا اس سے یھ بات ثابت نھیں ھوئی کھ ھر قرآن کریم پڑھنے والا برحق نھیں ھوتا۔
محترمھ! قرآن کریم کی آیات ضرور پڑھتی ھیں‘ لیکن ان آیات کا محترمھ کے مقصد اور دعویٰ سے کوئی تعلق نھیں ھوتا۔ محترمھ اپنے تئیں اپنے آپ کو اگر حق پر سمجھتی ھے تو کیا ام المؤمنین حضرت عائشھ‘ حضرت خدیجھ‘ حضرت زینب‘ حضرت رقیھ‘ حضرت ام کلثوم‘ حضرت فاطمھ‘ حضرت عاتکھ‘ حضرت صفیھ اورحضرت بریرھ رضی اللھ عنھن سب صحابیات ناحق پر تھیں؟ کیونکھ یھ سب عورتیں تھیں‘ عورتوں کی مخصوص بیماری ان میں بھی پائی جاتی تھی‘ کیاحیض کی وجھ سے نماز چھوڑ کر یھ صحابیات عذاب جھنم کی مستحق ھوئیں؟
معاذ اللھ ثم معاذ اللھ۔ اللھم انی بری مما یقول ھؤلاء الزنادقة الائمة الفجرة الفسقة المردة۔
حافظ ابن بطھ ابانھ میں لکھتے ھیں کھ:
” ولیعلم المؤمنون من اھل العقل والعلم ان قوما یریدون ابطال الشریعة‘ ودروس آثار العلم والسنة فھم یموھون علی من قل علمھ وضعف قلبھ بانھم یدعون الی کتاب اللھ ویعملون بھ وھم من کتاب اللھ یھربون وعنھ یدبرون ولھ یخالفون“۔ (فتح المنان ج:۲‘ ص:۷۰‘۷۱)
ترجمھ:۔”: مؤمنین اھل عقل ودانش کو جاننا چاھئے کھ ایک فرقھ جو شریعت کو باطل کرنا ‘ سنت اور علم کے آثار کو مٹانا چاھتاھے‘ وھ علم سے ناواقف اور کمزور دل والوں کوگمراھ کرتاھے۔ یھ فرقھ‘ بظاھر اللھ کی کتاب اور اس پر عمل پیرا ھونے کی دعوت دیتاھے ‘ حالانکھ یھ خود کتاب اللھ سے دور بھاگتاھے اور کتاب اللھ سے پیٹھ اور قرآن کریم کی مخالفت کرتا ھے“۔
حضرت حذیفھ کا صدیوں پھلے کا ارشاد آج حرف بحرف صحیح ثابت ھورھاھے:
”وروینا عن حذیفة انھ سیکون لیکونن قوم فی آخر ھذھ الامة یکذبون اولاھم ویلعنونھم‘ ویقولون: جلدوا فی الخمر ولیس ذلک فی کتاب اللھ‘ ورجموا ولیس ذلک فی کتاب اللھ‘ ومنعوا الحائض الصلوة ولیس ذلک فی کتاب اللھ“۔ (الاستذکارج:۱‘ ص:۳۴۰)
ترجمھ:۔ حضرت حذیفھ سے روایت ھے کھ آخری زمانے میں ایسے لوگ ھوں گے جو پھلے لوگوں کو جھٹلائیں گے اور ان پر لعنت بھیجیں گے اور کھیں گے کھ: پھلوں نے شرابی کو کوڑے لگائے‘ حالانکھ یھ حکم قرآن میں نھیں اور انھوں نے لوگوں کو رجم کیا جبکھ یھ بھی قرآن میں نھیں‘ ایسے ھی انھوں نے حائضھ عورت کو نماز پڑھنے سے منع کیا‘ حالانکھ یھ بات بھی اللھ کی کتاب میں نھیں ھے“۔
دیکھئے: حضرت حذیفھ نے آج کل کے حالات کی مکمل تصویر صدیوں پھلے پیش فرما دی‘ بلکھ واضح الفاظ میں فرمایا کھ ایسے لوگ پیدا ھوں گے جو کھیں گے کھ حائضھ عورتوں کو نماز پڑھنی چاھئے‘ کیونکھ قرآن کریم میں حیض والی عورت کو نماز سے نھیں روکا گیا۔
حضرت حذیفھ کی یھ خصوصیت ھے کھ آپ ا نے ان کو قیامت تک پیش آنے والے فتنوں کا حال بتا دیا تھا‘ حق اور ناحق ھمارے سامنے ھے‘ اب یھ فیصلھ ھم خود کریں کھ ھمیں حضورا اور آپ کے صحابھ کی بات ماننی چاھئے یا آج کے کسی منکر حدیث‘ خارجی اور نام نھاد روشن خیال کی؟
الجواب صحیح الجواب صحیح
محمد عبد المجید دین پوری شعیب عالم صالح محمد کاروڑی
محمد عبد القادرابوبکر سعید الرحمن محمد انعام الحق
کتبھ
سید صلاح الدین
متخصص فی الفقھ الاسلامی
جامعھ علوم اسلامیھ علامھ بنوری ٹاؤن
حالت حیض میں نمازودیگر عبادات کا حکم
کیا فرماتے ھیں علمأ کرام ومفتیانِ عظام اس مسئلھ میں کھ:
ایامِ حیض ونفاس میں عورت کے لئے نماز پڑھنا جائز ھے یا نھیں؟ ایک عورت قرآن پاک کا درس دیتی ھے اور وھ ایامِ حیض میں خود بھی نماز پڑھتی ھے اوردوسری عورتوں کو بھی ان ایام میں نماز پڑھنے کا کھتی ھے اور نماز پڑھواتی ھے اور یھ کھتی ھے کھ: حالتِ حیض ونفاس میں نماز نھ پڑھنے کا ثبوت قرآن میں نھیں ملتا۔ ھاں حدیث سے ثابت ھے‘ لیکن میں تو قرآن پاک کے حکم سے پڑھوں گی‘ میں نے کافی مفتیانِ عظام سے فتویٰ بھی لیا ھے‘ اس فتویٰ کے روسے پڑھوں گی‘ اور اب تو اس حالت میں حرم شریف بھی جاؤں گی۔ اس کا ساتواں حج ھے۔ اس کے بیان سے متاثر ھوکر کافی عورتیں حالتِ حیض ونفاس میں نماز پڑھنے لگ گئی ھیں اوراس حالت میں قرآن شریف کی تلاوت بھی کرتی ھیں‘ اب آپ مفتیان کرام سے مؤدبانھ التماس ھے کھ اس کے بارے میں آپ حضرات کا شریعت کی روشنی میں کیا فرمان ھے؟
والسلام۔
المستفتیھ: ام عبد اللھ‘ ابوھریرھ مسجد‘ گارڈن‘ کراچی
الجواب باسمھ تعالیٰ
واضح رھے کھ ایامِ حیض میں عورت کے لئے نماز پڑھنا شرعاً ناجائز ھے‘ یھی مذھب تمام صحابھ کرام‘ تابعین‘ تبع تابعین اور ائمھ مجتھدین کا ھے۔ اس بارے میں دلائل ملاحظھ ھوں:
۱-”عن ابی سعید الخدری قال: خرج رسول اللھ ا فی اضحیٰ او فطر الی المصلی‘ فمر علی النساء‘ فقال: یا معشر النساء! تصدقن‘ فانی اریتکن اکثر اھل النار‘ فقلن وبم؟ یا رسول اللھ! قال تکثرن اللعن‘وتکفرن العشیر ما رأیت من ناقصات عقل و دین اذھب للب الرجل الحاذم من احدکن‘ قلن وما نقصان دیننا وعقلنا یا رسول اللھ؟ قال الیس شھادة المرأة مثل نصف شھادة الرجل‘ قلن بلیٰ! قال فذالک من نقصان عقلھا۔ الیس اذا حاضت لم تصل ولم تصم‘ قلن: بلیٰ‘ قال:فذلک من نقصان دینھا“۔ (صحیح بخاری ج:۱‘ ص:۴۴)
ترجمھ:․․حضرت․ابوسعید خدری راوی ھیں کھ رسول اللھ ا عید الفطر یا عید الاضحیٰ کی نماز کے لئے عیدگاھ تشریف لے گئے تو آپ کا گزر عورتوں کی ایک جماعت کے پاس سے ھوا‘ آپ ا نے ان کو مخاطب کرکے فرمایا : اے عورتوں کی جماعت! تم صدقھ وخیرات کرو‘ کیونکھ میں نے تم عورتوں کی اکثریت کو دوزخ میں دیکھا ھے (یھ سن کر) عورتوں نے کھا: یا رسول اللھ! اس کا سبب؟ آنحضرت ا نے فرمایا کھ: تم لعن طعن بھت کرتی ھو اور اپنے شوھروں کی نافرمانی وناشکری کرتی رھتی ھو‘ اور میں نے عقل ودین میں کمزور ھونے کے باوجود ھوشیار مرد کو بے وقوف بنا دینے میں تم سے بڑھ کر کسی کو نھیں دیکھا (یھ سن کر) عورتوں نے عرض کیا: یا رسول اللھ! ھماری عقل اور ھمارے دین میں کمی کیسے ھے؟ آپ ا نے فرمایا: کیاایک عورت کی گواھی مرد کی گواھی کے نصف نھیں؟ (یعنی کیا ایسا نھیں ھے کھ شریعت میں دو عورتوں کی گواھی ایک مرد کی گواھی کے برابر سمجھی جاتی ھے) ان عورتوں نے کھا‘ جی ھاں! ایسا ھی ھے۔ آپ ا نے فرمایا: یھی ان کی عقل کی کمزوری کی دلیل ھے ۔ (آپ ا نے فرمایا) کیا ایسا نھیں ھے کھ عورت جب حیض کی حالت میں ھوتی ھے نھ تو نماز پڑھتی ھے اور نھ ھی روزھ رکھتی ھے؟ ان عورتوں نے کھا : جی ھاں! ایسا ھی ھے‘ آپ انے فرمایا: یھ ان کے دین میں ناقص ھونے کی دلیل ھے“۔
۲- ”عن عائشة انھا قالت فاطمة بنت ابی حبیش لرسول اللھ ا یا رسول اللھ! انی لا اطھر افادع الصلوة؟ فقال رسول اللھ ا! انما ذلک عرق ولیس بالحیضة‘ فاذا اقبلت الحیضة فاترکی الصلوة‘ فاذا ذھب قدرھا فاغسلی عنکِ الدم وصلی“۔ (صحیح بخاری ج:۱‘ ص:۴۴)
ترجمھ:․․․ حضرت عائشھ صدیقھ راویھ ھیں کھ فاطمھ بنت ابی حبیش نبی کریم ا کی خدمت اقدس میں حاضر ھوئیں اور عرض کیا : یا رسول اللھ!( میں ایک ایسی عورت ھوں جسے برابر بیماری کا خون آتا رھتاھے چنانچھ میں) کسی وقت پاک نھیں رھتی تو کیا میں نماز چھوڑد وں؟ آنحضرت ا نے فرمایا: نھیں۔ یھ تو ایک رگ سے خون بھتا ھے‘ حیض نھیں ‘ (جوکھ رِحم سے آتاھے)جب تجھے حیض آنے لگے تو نماز چھوڑ دو اور جب حیض ختم ھوجائے تو جسم سے خون کو دھو ڈالو اور نھاکر نماز پڑھ لو“۔
۳- ”عن معاذة قالت: سالت عائشة ‘ فقلت: ما بال الحائض تقضی الصوم ولاتقضی الصلوة؟ فقالت: احروریة انتِ؟ فقلت: لست بحروریة‘ ولکن اسئل۔ قالت: کان یصیبنا ذلک فنومر بقضاء الصوم ولانومر بقضاء الصلوة“۔ (صحیح مسلم ج:۱‘ ص:۱۵۳)
ترجمھ:۔حضرت معاذھ سے روایت ھے کھ میں نے حضرت عائشھ سے پوچھا : کیا وجھ ھے کھ حائضھ عورت روزوں کی قضا کرتی ھے اور نماز کی قضا نھیں کرتی؟ حضرت عائشھ نے فرمایا: کیا تو حروریھ (خوارج سے) ھے؟ میں نے کھا: میں تو حروریھ نھیں ھوں‘ بلکھ جاننا چاھتی ھوں۔ حضرت عائشھ نے فرمایا: ھمیں حیض آتا تو ھمیں روزوں کی قضا کا حکم دیا جاتا اور نماز کی قضا کا حکم نھیں دیا جاتاتھا“۔
ان تمام احادیث سے صاف معلوم ھوتاھے کھ ایام حیض میں نماز معاف ھے‘ چونکھ آپ ا وحی الٰھی کے مخاطب ‘ احکام خداوندی کے تعمیل کنندھ اور مطیع وفرمانبردار تھے‘ اللھ تعالیٰ نے آپ ا کو لوگوں کے لئے نمونھ بناکر مبعوث فرمایا‘ آپ ا وحی الٰھی کے منشأ ومراد سمجھنے اور سمجھانے والے تھے‘ اس لئے آپ ا کی اطاعت‘ عین خدا تعالیٰ کی اطاعت ھے۔ آپ ا کا ھر ایک حکم دین کے معاملھ میں ایسا ھی واجب التعمیل اور ضروری ھے‘ جیساکھ خداوند تعالیٰ کا حکم واجب التعمیل اور ضروری ھے۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر جناب رسول اللھ ا کی اطاعت اور اتباع کا حکم اور آپ ا کی نافرمانی سے منع کیاگیا ھے۔ چنانچھ ارشاد الٰھی ھے:
”من یطع الرسول فقد اطاع اللھ“۔ (النساء:۱۱)
ترجمھ:- ”جس نے حکم مانا رسول کا‘ اس نے حکم مانا اللھ کا“۔
دوسری جگھ ارشاد ھے:
”قل ان کنتم تحبون اللھ فاتبعونی یحببکم اللھ“۔ (آل عمران: ۴)
ترجمھ:-”تو کھھ اگر تم محبت رکھتے ھو اللھ کی تو میری راھ چلو تاکھ محبت کرے تم سے اللھ“۔
اور ایک جگھ یوں فرمایا:
”ما آتاکم الرسول فخذوھ وما نھاکم عنھ فانتھو“ (الحشر:۷)
ترجمھ:-”اور جودے تم کو رسول سو لے لو اور جس سے منع کرے سو چھوڑ دو“۔
پروردگار عالم نے قرآن کریم میں قسم اٹھا کر یھ حکم بیان کیا ھے کھ تیرے رب کی (یعنی مجھے اپنی ذات کی) قسم کھ یھ لوگ اس وقت تک مؤمن نھیں ھوسکتے تاوقتیکھ آپ کو ھربات اور ھرمعاملھ میں اپنا فیصل اور حکم تسلیم نھ کریں اور پھر دل میں ذرھ بھر تنگی محسوس نھ کریں اور آپ کے حکم کے سامنے گردن تسلیم خم نھ کردیں‘جیساکھ ارشاد ھے:
”فلا وربک لایؤمنون حتی یحکموک الخ“ ۔(النساء:۶۵)
قرآن کریم میں آپ ا کی اطاعت اور اتباع کو امت کے لئے جس طرح لازم اور ضروری قرار دیا گیا ھے‘ اسی طرح خود آنحضرت ا نے بھی واضح الفاظ میں یھ ارشاد فرمایا ھے کھ:
”لایؤمن احدکم حتی یکون ھواھ تبعالما جئت بھ“ ۔ (مشکوٰة:ص:۳۰)
ترجمھ:۔”تم میں سے کوئی شخص مؤمن نھیں ھوسکتا تا وقتیکھ اس کی خواھش اس دین کے تابع نھ ھو جائے جو میں لے کر آیاھوں“۔
بھرحال گذشتھ تفصیل سے معلوم ھوا کھ حضورا کے واضح ارشادات اس کے متعلق موجود ھیں اور یھ بھی معلوم ھوا کھ صحابھ کرام کے نزدیک یھ مسئلھ بالکل واضح تھا‘ اس کے ساتھ اگر فقھأ کرام اور مجتھدین کے اقوال ومذاھب کا جائزھ لیں تو دنیا میں کسی بھی فقیھ کا اس مسئلے میں کوئی اختلاف نظر نھیں آتا اور سب کے سب اس بات پر متفق ھیں کھ حیض کی حالت میں عورت نماز نھ پڑھے اور یھ ایک ایسا اجماع ھے جو یقینی اور پختھ ھے۔
امام ابن منذر لکھتے ھیں:
”اجمعوا علی ان الحائض لاصلوة علیھا فی ایام حیضتھا فیجب علیھا القضاء“۔ (الاجماع ص:۳۲)
ترجمھ:-”فقھأ کا اس پر اجماع ھے کھ حائضھ پر ایام حیض میں نماز نھیں کھ جس کی بنا پر اس پر (نماز کی) قضا ھو“۔
موسوعة الاجماع میں ھے:
”اجمع المسلمون علی انھ یحرم علی الحائض والنفساء فی حال حیضھا الصلوة فرضھا ونفلھا وھذا الاجماع متیقن“ (ج:۲‘ص:۶۳۲)
ترجمھ:-”مسلمانوں کا اس پر اجماع ھے کھ حائضھ اور نفاس والی عورت پر حالت حیض (اورنفاس) میں فرض‘ نفل ھرقسم کی نماز حرام ھے اور یھ اجماع یقینی ھے“۔
حافظ ابن عبد البر لکھتے ھیں:
”وھذا اجماع من علمأ المسلمین نقلتھ الکافة کما نقلتھ الاحاد العدول ولامخالف فیھ الاطوائف من الخوارج‘ یرون علی الحائض الصلوة‘ اما علمأ السلف والخلف واھل الفتوی فکلھم علی ان الحائض لاتصلی ولاتقضی الصلوة ایام حیضھا“۔ (الاستذکار‘ ص:۲۳۸)
ترجمھ:۔”اور یھ علمأ مسلمین کا اجماع ھے جس کو بھت بڑی جماعت نے نقل کیا ھے ․․․ اور اس میں کسی کا اختلاف نھیں‘ سوائے خارجی ٹولھ کے۔ وھ کھتے ھیں کھ حائضھ پر نماز ھے۔ رھے علمأ سلف وخلف اور اھل فتویٰ سب کا یھی قول ھے کھ حائضھ نماز نھ پڑھے اور نھ حیض کی دنوں کی نماز قضاء کرے“۔
”عن معمر عن الزھری قال: الحائض تقضی الصوم ولاتقضی الصلوة قلت عمن؟ قال: اجتمع الناس علیھ ولیس فی کل شئ تجد الاسناد“۔ ( حوالھ بالا‘ج:۱‘ ص:۳۳۹)
ترجمھ:۔”حضرت معمر راوی ھیں کھ امام زھری نے کھا: حائضھ روزے کی قضاء کرے اور نماز کی قضا نھ کرے۔ میں نے کھا: کیا وجھ ھے؟ امام زھری نے کھا لوگوں کا اس پر اجماع ھے ․․․․“۔
امام نووی صحیح مسلم کے حاشیھ میں لکھتے ھیں:
”وھذا نھی لھا عن الصلوة فی زمن الحیض وھو نھی تحریم‘ ویقتضی فساد الصلوة ھنا باجماع المسلمین‘ وسواء فی ھذا الصلوة المفروضة والنافلة‘ لظاھر الحدیث‘ وکذلک یحرم علیھا الطواف‘ وصلوة الجنازة‘ وسجود التلاوة‘ وسجود الشکر‘ وکل ھذا متفق علیھ‘ وقد اجمع العلماء علی انھا لیست مکلفة بالصلوة‘ وعلی انھ لاقضاء علیھا“۔ (صحیح مسلم ج:۱‘ ص:۱۵۲)
ترجمھ:۔”اور یھ نھی ھے عورت کے لئے زمانھ حیض میں نماز سے‘ اور یھ نھی تحریمی ھے۔ اور مسلمانوں کا اجماع تقاضا کرتاھے حائضھ عورتوں کے لئے فساد صلوة کا ‘ حدیث کی بنا پر۔ اس حکم میں نماز فرض اور نفل برابر ھے اسی طرح ان حائضھ عورتوں پر بیت اللھ کا طواف‘ نماز جنازھ‘ سجدھ تلاوت اور سجدھ شکر حرام ھے‘ اور ھر ایک کا یھ حکم اتفاقی ھے‘ اور علمأ کا اس پر اجماع ھے کھ حائضھ نماز کی مکلف نھیں‘ اور اس پر بھی اجماع ھے کھ حائضھ پر نماز کی قضاء نھیں“۔
جب اس مسئلھ پر تمام ائمھ وفقھأ کا اجماع ھے اوراجماع سے ثابت ھونے والا حکم قطعی ھوتا ھے تو اس حکم پر عمل کرنا لازم اور ضروری ھے۔ کشف الاسرار میں ھے:
”الاصل فی الاجماع ان یکون موجبا للحکم کالکتاب والسنة“۔ (کشف الاسرار ص:۳۷۲)
ترجمھ:۔” اجماع میں اصل یھ ھے کھ وھ کتاب وسنت کی طرح حکم کو واجب کرتاھے“
”ان یثبت المراد بھ حکما شرعیا علی سبیل التیقن“۔ (الکافی شرح البزدوی ص:۱۶۱)
ترجمھ:۔”اجماع سے حکم شرعی کی مراد یقینی طور ثابت ھوتی ھے“۔
لھذا جب اس بات پر اجماع ھے کھ حیض کی حالت میں عورت پر نماز نھیں اور یھ بھی معلوم ھوا کھ اجماع سے حکم قطعی ثابت ھوتاھے ‘جس کی مخالفت ھرگز جائز نھیں اور اجماع کو جھٹلاناگویا دین کے ایک حصھ کوباطل کرنا ھے‘ تو اب موصوفھ کو اس پر غور کرنا چاھئے کھ وھ آیات قرآنی‘ احادیث رسول اللھ اور اجماع کی مخالفت کرکے حیض کی حالت میں نماز پڑھنے کوجائز اور ضروری سمجھ کر کھاں کھڑی ھے ؟ کیا موصوفھ نے احادیث رسول اللھ کا انکار اور خارجیوں کی طرح ”حسبنا کتاب اللھ“ کا نعرھ لگاکر مسلمانوں سے خروج کرکے منکرین حدیث اور خارجیوں میں شامل ھونے کا اعلان نھیں کردیا؟
یاد رھے کھ مذھبی لحاظ سے سطح ارضی پر اگرچھ بے شمار فتنے رونما ھوئے ھیں اورحضور ا کی پیش گوئی کے مطابق قیامت تک رونما ھوتے رھیں گے‘ لیکن فتنھ ”انکار حدیث“ اپنی نوعیت کا ایک انوکھا فتنھ ھے‘ کیونکھ باقی فتنوں سے توصرف شجرھ اسلام کے برگ وبار کوھی نقصان پھنچتاھے ‘لیکن اس فتنے سے شجرھ اسلام کی جڑیں اور بنیادیں ھی کھو کھلی ھوکر رھ جاتی ھیں اور اسلام کا کوئی بدیھی مسئلھ بھی اپنا وجود برقرار نھیں رکھ سکتا‘ اس عظیم فتنے سے عقائد واعمال‘ اخلاق ومعاملات‘ معیشت ومعاشرت اور دنیا وآخرت کا کوئی مسئلھ بھی محفوظ نھیں رھ سکتا‘ حتی کھ قرآن کریم کی تفسیر وتشریح کچھ سے کچھ ھوکر رھ جاتی ھے۔ آج کل قرآن کا نام اس لئے استعمال کیا جاتاھے تاکھ حدیث کا انکار کیا جائے‘ جبکھ حقیقت یھ ھے کھ قرآن کو حدیث کی تشریح کے بغیر سمجھنا ممکن نھیں‘ قرآن کا خدائی کتاب ھونا خود حدیث سے ثابت ھے‘ اگر حدیث پر ایمان نھ ھو تو قرآن کریم پر ایمان معتبر نھیں ھوسکتا‘ قرآن کریم تشریح اور فصاحت میں بھی حدیث کا محتاج ھے‘ قرآن کریم کی تشریح کرنا‘ نبی کریم ا کی ذمھ داری ھے‘ بسا اوقات قرآن کریم کے ایک لفظ سے کئی کئی معانی نکلتے ھیں‘ لیکن کون سا معنیٰ ومطلب مراد لینا درست ھے؟ یھ حدیث سے ھی معلوم ھوتاھے۔
حضرت علی نے حضرت ابن عباس کو خوارج کے ساتھ مناظرے کے لئے جب بھیجا تو بھیجتے وقت یھ تاکید کی کھ خوارج کے سامنے قرآن کریم کو بطور دلیل پیش مت کرنا‘حضرت ابن عباس نے حیرت سے پوچھا کھ مجھے نبی کریم ا نے یھ دعا دی ھے ”اللھم فقھھ فی الدین وعلمھ التاویل“ حضور ا کی دعا کی برکت سے مجھے قرآن کا علم حاصل ھے تو پھر میں کیوں نھ ان کے سامنے قرآن کریم کو بطور دلیل پیش کروں؟ حضرت علی نے جواب دیا کھ: قرآن کریم کے ایک ایک لفظ کے بھت سے معانی نکلتے ھیں‘ تم قرآن کریم پڑھو گے اور جواب میں خوارج بھی قرآن کریم پڑھیں گے تم ایک معنی مراد لو گے‘ خوارج اسی آیت سے دوسرا مطلب نکالیں گے‘ اس طرح حق واضح نھیں ھوگا‘ اس لئے ان کے سامنے سنت کو پیش کرنا‘ کیونکھ سنت میں کوئی ابھام نھیں‘ سنت سے غلط معنی مراد نھیں لیا جاسکتا۔ حضرت عمر کا ارشاد گرامی ھے کھ:
”و انھ سیاتی ناس یجادلونکم بشبھات القرآن فخذوھم بالسنن فان اصحاب السنن اعلم بکتاب اللھ“۔ (مسند دارمی‘ج:۲‘ ص:۴۷)
ترجمھ:۔” عنقریب کچھ لوگ تم سے جھگڑا کریں گے اور قرآن کا نام لے کر شکوک وشبھات پیدا کریں گے‘ ان کا علاج یھ ھے کھ ان کو حضور ا کی سنتوں سے پکڑو‘ کیونکھ سنت وحدیث کا علم رکھنے والے ھی اللھ تعالیٰ کی کتاب کو صحیح سمجھنے والے ھیں“:
یھ حقیقت ھے کھ آج کل قرآن کریم کا نام لے کر سادھ لوح مسلمانوں کو دین سے دور کیا جارھاھے‘ آج کل مسلمان بھت جلد فتنوں کا شکار ھوجاتے ھیں‘ قرآن کریم کا نام سنتے ھیں فوراً متاثر ھوجاتے ھیں‘ حالانکھ ھر فتنھ اپنی تائید میں قرآن کریم کوبطور دلیل پیش کرتاھے‘ اسلام کی چودھ سو سالھ تاریخ آپ کو ایسے فتنوں سے پُرنظر آئے گی‘ خوارج قرآن مجید کی آیت ”ان الحکم الا للھ“ (یوسف:۴۰) اور ”للھ الامر من قبل ومن بعد“ (الروم:۴)پڑھ کر سیدنا حضرت علی کے مقابلے کے لئے نکلے تھے‘ خود حضور ا کا ارشاد ھے:
” عنقریب ایسے لوگ ظاھر ھوں گے جو تم سے زیادھ عبادت گزار ھوں گے‘ قرآن کریم بھی تم سے زیادھ پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے گلے سے نیچے اترکر ان پر اثر نھیں کرے گا“۔
ھم مسلمان اتنی جلدی کیوں بھول جاتے ھیں‘ دین کے بارے میں ھمارا حافظھ اتنا کمزور کیوں ھے؟ حالانکھ حضور ا کا ارشاد ھے کھ: مؤمن ایک سوراخ سے دوبار نھیں ڈسا جاسکتا‘ ھم ھزار بار ڈسے جاچکے ھیں‘ پھر بھی ھمیں ھوش نھیں‘ کیاابھی کل کی بات نھیں؟ کھ ”مرزاغلام احمد قادیانی“ قرآن کریم کی آیت
”ولکن رسول اللھ وخاتم النبیین“ (الاحزاب:۴۰)
پڑھ کر اپنے آپ کو نبی کھتا تھا‘ کیا قرآن کریم پڑھنے سے قادیانی برحق ھوگئے؟ کیا اس سے یھ بات ثابت نھیں ھوئی کھ ھر قرآن کریم پڑھنے والا برحق نھیں ھوتا۔
محترمھ! قرآن کریم کی آیات ضرور پڑھتی ھیں‘ لیکن ان آیات کا محترمھ کے مقصد اور دعویٰ سے کوئی تعلق نھیں ھوتا۔ محترمھ اپنے تئیں اپنے آپ کو اگر حق پر سمجھتی ھے تو کیا ام المؤمنین حضرت عائشھ‘ حضرت خدیجھ‘ حضرت زینب‘ حضرت رقیھ‘ حضرت ام کلثوم‘ حضرت فاطمھ‘ حضرت عاتکھ‘ حضرت صفیھ اورحضرت بریرھ رضی اللھ عنھن سب صحابیات ناحق پر تھیں؟ کیونکھ یھ سب عورتیں تھیں‘ عورتوں کی مخصوص بیماری ان میں بھی پائی جاتی تھی‘ کیاحیض کی وجھ سے نماز چھوڑ کر یھ صحابیات عذاب جھنم کی مستحق ھوئیں؟
معاذ اللھ ثم معاذ اللھ۔ اللھم انی بری مما یقول ھؤلاء الزنادقة الائمة الفجرة الفسقة المردة۔
حافظ ابن بطھ ابانھ میں لکھتے ھیں کھ:
” ولیعلم المؤمنون من اھل العقل والعلم ان قوما یریدون ابطال الشریعة‘ ودروس آثار العلم والسنة فھم یموھون علی من قل علمھ وضعف قلبھ بانھم یدعون الی کتاب اللھ ویعملون بھ وھم من کتاب اللھ یھربون وعنھ یدبرون ولھ یخالفون“۔ (فتح المنان ج:۲‘ ص:۷۰‘۷۱)
ترجمھ:۔”: مؤمنین اھل عقل ودانش کو جاننا چاھئے کھ ایک فرقھ جو شریعت کو باطل کرنا ‘ سنت اور علم کے آثار کو مٹانا چاھتاھے‘ وھ علم سے ناواقف اور کمزور دل والوں کوگمراھ کرتاھے۔ یھ فرقھ‘ بظاھر اللھ کی کتاب اور اس پر عمل پیرا ھونے کی دعوت دیتاھے ‘ حالانکھ یھ خود کتاب اللھ سے دور بھاگتاھے اور کتاب اللھ سے پیٹھ اور قرآن کریم کی مخالفت کرتا ھے“۔
حضرت حذیفھ کا صدیوں پھلے کا ارشاد آج حرف بحرف صحیح ثابت ھورھاھے:
”وروینا عن حذیفة انھ سیکون لیکونن قوم فی آخر ھذھ الامة یکذبون اولاھم ویلعنونھم‘ ویقولون: جلدوا فی الخمر ولیس ذلک فی کتاب اللھ‘ ورجموا ولیس ذلک فی کتاب اللھ‘ ومنعوا الحائض الصلوة ولیس ذلک فی کتاب اللھ“۔ (الاستذکارج:۱‘ ص:۳۴۰)
ترجمھ:۔ حضرت حذیفھ سے روایت ھے کھ آخری زمانے میں ایسے لوگ ھوں گے جو پھلے لوگوں کو جھٹلائیں گے اور ان پر لعنت بھیجیں گے اور کھیں گے کھ: پھلوں نے شرابی کو کوڑے لگائے‘ حالانکھ یھ حکم قرآن میں نھیں اور انھوں نے لوگوں کو رجم کیا جبکھ یھ بھی قرآن میں نھیں‘ ایسے ھی انھوں نے حائضھ عورت کو نماز پڑھنے سے منع کیا‘ حالانکھ یھ بات بھی اللھ کی کتاب میں نھیں ھے“۔
دیکھئے: حضرت حذیفھ نے آج کل کے حالات کی مکمل تصویر صدیوں پھلے پیش فرما دی‘ بلکھ واضح الفاظ میں فرمایا کھ ایسے لوگ پیدا ھوں گے جو کھیں گے کھ حائضھ عورتوں کو نماز پڑھنی چاھئے‘ کیونکھ قرآن کریم میں حیض والی عورت کو نماز سے نھیں روکا گیا۔
حضرت حذیفھ کی یھ خصوصیت ھے کھ آپ ا نے ان کو قیامت تک پیش آنے والے فتنوں کا حال بتا دیا تھا‘ حق اور ناحق ھمارے سامنے ھے‘ اب یھ فیصلھ ھم خود کریں کھ ھمیں حضورا اور آپ کے صحابھ کی بات ماننی چاھئے یا آج کے کسی منکر حدیث‘ خارجی اور نام نھاد روشن خیال کی؟
الجواب صحیح الجواب صحیح
محمد عبد المجید دین پوری شعیب عالم صالح محمد کاروڑی
محمد عبد القادرابوبکر سعید الرحمن محمد انعام الحق
کتبھ
سید صلاح الدین
متخصص فی الفقھ الاسلامی
جامعھ علوم اسلامیھ علامھ بنوری ٹاؤن
No comments:
Post a Comment
Plz turn of your sound volume bcoz there is music behind this video