Mar 4, 2009

اساتذہٴ کرام کا ادب واحترام

مولوی دلاور علی‘ جامعھ مفتاح العلوم سرگودھا
اساتذھٴ کرام کا ادب واحترام

ھمارا نظام تعلیم اگرچھ بے شمار خوبیوں اور صفات کا حامل ھے‘ لیکن دور حاضر میں ان مدارس سے فیض یاب لوگوں کے ساتھ جو امید کی کرنیں وابستھ ھیں اور ان سے مفید نتائج کی جو توقع دل میں جائے گیر ھے وھ شاید کار آمد ثابت نھیں ھو رھی، حتی کھ بعض اوقات دینی مدارس اور مذھبی مراکز میں ایسے واقعات رونما ھوتے ھیں کھ جن سے اھل علم اور ذی شعور لوگوں کا سر شرم وندامت کی وجھ سے جھکنے پر مجبور ھوجاتا ھے۔
طلباء کی نظر میں اساتذھ کی قدر ایک ملازم کی سی ھوکر رھ گئی ھے ‘ اگر میں یوں کھوں تو برانھیں ھوگا کھ ھمارے عزیز طلباء کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے طلباء کے نقش قدم پر چلتے نظر آتے ھیں اور ایک عرصھٴ دراز تک مدارس میں اساتذھ کی زیر نظر اور نگرانی میں رھ کر بھی کچھ بن نھیں پاتے اور جب عملی زندگی کے میدان میں قدم رکھتے ھیں تو اپنے آپ کو جداگانھ اور ناکام محسوس کرتے ھوئے لبوں کو یھاں تک جسارت دیدیتے ھیں کھ ھم نے تو مدارس میں رھ کر اپنے وقت کا ضیاع کیا۔ آخر کیوں؟ قارئین کرام! یھ سوال ھر صاحب علم اور ملت کے ھر دردمند مسلمان کے دل میں جگھ پکڑے ھوئے ھے اور اس کو حل کرنے کے لئے سب ھی سرنگوں ھیں۔ حقیقت میں کوئی کام کتنا ھی عظیم اور مفید تر کیوں نھ ھو اگر اس کے صحیح اسباب سے صرف نظر اور روگردانی برتی جائے اور اس کے حصول میں جو موانع ھیں ان سے اپنے دامن کو داغدار کرلیا جائے تو وھ مفید نتائج وثمرات معرض وجود میں نھیں آسکتے جن کی ان سے توقع اور امید کی جاتی ھے۔ صحیح اسباب اور ارتفاع موانع متوقع نتائج کے لئے روح کا درجھ رکھتے ھیں ،جن سے آج کے مدارس کافی حد تک ویران پڑے نظر آتے ھیں۔ کیوں نھ انھی اسباب صحیحھ میں سے ایک سبب کا تذکرھ آپ کے گوش وگزار کروں کھ جس کو تعلیمی ترقی کے لئے بڑی مقبولیت کا شرف حاصل ھے‘ وھ ھے اساتذھ ٴ کرام کا ادب۔
قارئین کرام! اساتذھ ٴ کرام کا ادب واحترام ایک طالب علم کو کامیاب انسان اور امت کا پیشوا وراھنما بنا سکتا ھے‘ ایسے طلباء بعد میں دین کی اشاعت کرتے ھیں جن سے ھزاروں بندگانِ خدا کو ھدایت ملتی ھے اور وھ زمین پر مانند ستاروں کے ھوتے ھیں، ان کی صحبت میں ایسا سحر اور جادو ھوتا ھے کھ ان کی مجلس میں بیٹھ کر ھزار ھا برس کا پاپی گناھوں سے توبھ کرکے خدا تعالیٰ کی معرفت کا نور دل میں سمالیتا ھے‘ ان کی فراست سے بڑے بڑے پیچیدھ مسائل حل ھوجاتے ھیں‘ وھی علوم کھ جن کو پڑھ کر حضرت مولانا قاسم نانوتوی‘ حضرت مولانا رشید احمد گنگوھی‘ حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی‘ حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی‘ حضرت مدنی جیسے سینکڑوں ایسے درخشندھ ستارے پیدا ھوئے کھ جن سے ایک عالم خوب سیراب ھوا، اور جو علم وھدایت کے آفتاب وماھتاب بن کرچمکے۔ ان کا لائحھ عمل کیا تھا کھ جس نے ان کو اس شان کا مستحق ٹھھرایا؟ تو نظر وفکر کرنے سے یھ بات روز روشن کی طرح عیاں ھوجائے گی کھ اس میں اساتذھ ٴ کرام کے ادب واحترام کا بڑا دخل تھا۔کیا بعید ھے کھ اگر آج بھی طلباء کرام اپنے اساتذھ ٴ کرام کے ادب واحترام سے نا آشنانھ ھوں تو وھ بھی دنیا کے مقتدا وپیشوا بن کر اجاگر ھوں۔
عربی کا ایک مقولھ مشھور ومعروف ھے : ”العلم کلھ ادب“ کھ علم سارا کا سارا ادب ھے‘ جو وقت کا امام‘ مفسر‘ محدث اور لوگوں کو اپنے علم سے سیراب کرنے کا ذریعھ بنا تو وھ اساتذھ ٴ کرام کے ادب واحترام کی وجھ سے بنا۔ حضرت علی  کا فرمان ھے کھ:” میں غلام ھوں اس شخص کا جس نے مجھے ایک حرف بھی سکھایا، چاھے تو وھ مجھے بیچ دے یا غلام بنالے“۔
غرض جس طالب علم نے بھی علم وعمل کی بلند وبالا چوٹیوں پر اپنا نشیمن قائم کیا تو ایسا ادب واحترام کی بدولت ھی ممکن ھوا۔ لھذا اگر کوئی طالب علم چاھتاھے کھ اس کے علم سے خلقِ خدا بھرھ مند ھو اور اس کا فیض چار دانگ عالم میں پھیلے تو اس کو ادب واحترام کا دامن لازم پکڑنا ھوگا۔

No comments:

Post a Comment

Plz turn of your sound volume bcoz there is music behind this video