Sep 16, 2010

دین کو کیسے سمجھا جائے

MAULANA TAHIR HUSAIN GAYAVI

deen-ko-kese-samjha-jaeشیطان ہمارا ابدی دشمن ہے اور ہمیں کبھی بھی دین پر چلتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتا اور اگر کسی شخص کی زندگی بھولے میں گزرگئی اور اسے اپنی عمر کے کسی آخری دور میں احساس ہوا کہ میں نے دین سے دور رہ کرزندگی گزاری ہے جو کہ میری غلطی تھی اب میں اپنی بقیا زندگی اللہ و رسول ﷺ کے حکم کے بطابق گزارونگا تو شیطان کو اور زیادہ تکلیف ہوتی ہے اور پھر وہ ایک ایسی خطرناک چال چلتا ہے کہ بندہ تو سمجھے کہ میں دین پر عمل کررہا ہوں لیکن حقیقت میں وہ اور بے دین ہو رہا ہو۔
شیطان کا طریقہ وردات یہ ہے کہ ایسے شخص کے دل میں یہ بات ڈالدیتا ہے کہ میں تو پڑھا لکھا ہوں،پروفیسر ہوں مجھے کسی عالم کی کتاب پڑھنے کی کیا ضرورت ہے میں خود قرآن کریم،احادیث نبوی سے دین کو حاصل کرسکتا ہوں بس! پھر کیا ہے بازار جاتا ہے اور ایک قرآن کریم کا نسخہ ترجمہ والا اور ایک حدیث کی کتاب بخاری اردو ترجمہ کے ساتھ خرید لاتا ہے اور مطالعہ شروع کردیتا ہے۔
چند حدیثیں پڑھنے کے بعد پھر شیطان اسکے دل میں وسوسہ یہ ڈالتا ہے کہ ا رے حدیث میں تو نماز کا طریقہ بالکل الگ لکھا ہوا ہے اور میں پچھلے 40 سال سے تو غلط نماز پڑھ رہا تھا اور میرے ماں باپ بھی غلط پڑھ رہے تھے بلکہ پوری امت مسلمہ غلط پڑھ رہی تھی۔ لو جی پھر کیا شیطان دل میں ڈالتا ہے کہ اب تمھاری زندگی کا مقصد ان لوگوں کی اصلاح کرنا ہے اور دیکھو اللہ تعالیٰ کتنی بڑی نیکی کا کام تم سے کروارہے ہیں اور یہ کام تمھاری گزشتہ بے دینی والی زندگی کا کفارہ بن جائیگا۔ اور پھر سب سے پہلے اس کے گھر سے تباہی کا آغاز ہوتا ہے اور پھر محلہ کی مسجد میں لڑائی ہوتی ہے کہ آپ لوگ حدیث کے خلاف نماز پڑھتے ہیں۔اور پھر کیا اس طرح ایک نظریہ معاشرے میں جنم لیتا ہے اور شیطان اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتا ہے۔پہلے تو اسنے ایک شخص کو دین سے دور رکھا تھا اب اسے دین پر لگاکر اس سے کئی اور لوگوں کو دینی بے دین کردیا ۔ اسی فکر کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے آپ کے لئے انڈیا کے جید عالم اور بہترین مناظر حضرت مولانا طاہر حسین گیاوی مدظلہ کا ایک بیان آپ کو سنانے کا اہتمام کیا ہے۔جس میں حضرت نے شیطان کی ان چالوں کا ذکر کیا ہے اور ان سے بچنے کا طریقہ بتلایا ہے۔اللہ تعالیٰ اس بیان سے ہمیں اور سب کو دین کی سمجھ عطا فرمائے۔ آمین

CLICK HERE TO LISTEN

AQEEDA ILM E GHAIB NABI

ilm-e-ghaibکسی گاؤں میں ایک مولوی صاحب اور ایک وکیل صاحب ایک مجلس میں جمع ہوگئے باتوں باتوں میں مولوی صاحب نے وکیل کو (بندہ) کہ دیا اور وکیل صاحب اس بات کا سخت برا مان گئے کہ مجھے مولوی صاحب نے بندہ کہا ( گستاخی کا معنیٰ سمجھنے لگے) مجلس میں موجود لوگ دونوں کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے کیونکہ ایک طرف مولوی صاحب دین پڑھا ہوا اور دوسری طرف وکیل صاحب دنیا کے قانون پڑھے ہوئے اب بے چارے دیہاتی کیا فیصلہ کریں ان پڑھے لکھوں کا۔مولوی صاحب نے یہ بات بھانپ لی اور فورا اپنی بات کی دلیل پیش کردی کہ جناب یہ لفظ (بندہ کہنا) گستاخی نہیں بلکہ یہ تو تعریف کی بات ہے اللہ کا بندہ ہونا اور کلمہ میں کیا پڑھتے ہو کہ آپ ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ مگر وکیل صاحب یہ بات دل پے لے بیٹھے کہ مجھے بھری محفل میں بندہ کیوں کہا!!!
یہ واقعہ لکھنے کا مقصد اس بات کی طرف توجہ دلوانا مقصود ہے کہ بظاہر پڑھا لکھا ہونے کے باوجود انسان صحیح شے کو بھی نقصان دہ سمجھ سکتا ہے اور نقصان دہ شے کو فائدہ مند سمجھ سکتا ہے،تعریف کو تزلیل شمار کرسکتا ہے اور بے عزتیں میں اسے عزت نظر آ سکتی ہے۔
یہ سارا معاملہ ذہنی ،علمی وسعت،قلت کے نتیجے میں وجود میں آتا ہے۔ اسی طرح محدود علم و ماحول کے افراد جب دین کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو دین کی وسعت کو سمجھنے کے بجائے اپنی محدود سوچ سے دین کو سمجھتے ہیں اور سمجھانے کی بھی کوشش کرتے ہیں نتیجہ عالم اور ادھورے علم والے عالم کے درمیان جھگڑا ہوجاتا ہے اور بے چاری عوام پریشان حال سوائے پریشان ہونے کے یا دین سے متنفر ہونے کے کچھ حاصل نہیں کرپاتی۔
موجودہ دور میں امت کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لئے ایسے ہی ہتکنڈے استعمال کیئے جاتے ہیں کیونکہ عوام کا علماء سے خاص ربط ہے اور اگر عوام کو توڑنا ہے آپس میں لڑانا ہے تو علماء میں اختلاف پیدا کردو یا پرانے اختلاف کو اور ہوا دے کر تازہ کرو تاکہ مسلمان آپس میں ہی مشغول ہو جائیں ایک دوسرے کو کافر قرار دےنے لگیں اور اپنے اصل دشمن کو پہچاننے کے بجائے اسی کے آلہ کار بن جائیں۔
اسی فکر کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم نے کوشش شروع کی ہے کہ امت کا ایک بہت بڑا طبقہ ایک دوسرے کے پیچھے لگاہوا ہے بلکہ گستاخ سے بات بڑھ کر کفر کے فتوں تک جا پہنچی ہے اور اختلاف کی اصل حقیقت وہی مولوی صاحب اور وکیل والی ہے ۔
لھذا آپ کے لئیے انڈیا کے جید عالم حضرت مولانا طاہر حسین گیاوی دامت برکاتھم کے بیانات میں سے انتخاب کیا گیاہے۔آپ کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتے ہوں لیکن حق کی تلاش میں ہمشہ متلاشی رہتے ہونگے لھذا آپ سے درخواست ہے کہ آپ اس بیان کو ضرور ایک بار سنیں ۔سننے کے بعد فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہوگا کہ مولوی صاحب کا بندہ کہنا درست تھا یا وکیل صاحب کا ناراض ہونا۔

CLICK HERE TO listen