کسی گاؤں میں ایک مولوی صاحب اور ایک وکیل صاحب ایک مجلس میں جمع ہوگئے باتوں باتوں میں مولوی صاحب نے وکیل کو (بندہ) کہ دیا اور وکیل صاحب اس بات کا سخت برا مان گئے کہ مجھے مولوی صاحب نے بندہ کہا ( گستاخی کا معنیٰ سمجھنے لگے) مجلس میں موجود لوگ دونوں کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے کیونکہ ایک طرف مولوی صاحب دین پڑھا ہوا اور دوسری طرف وکیل صاحب دنیا کے قانون پڑھے ہوئے اب بے چارے دیہاتی کیا فیصلہ کریں ان پڑھے لکھوں کا۔مولوی صاحب نے یہ بات بھانپ لی اور فورا اپنی بات کی دلیل پیش کردی کہ جناب یہ لفظ (بندہ کہنا) گستاخی نہیں بلکہ یہ تو تعریف کی بات ہے اللہ کا بندہ ہونا اور کلمہ میں کیا پڑھتے ہو کہ آپ ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ مگر وکیل صاحب یہ بات دل پے لے بیٹھے کہ مجھے بھری محفل میں بندہ کیوں کہا!!!
یہ واقعہ لکھنے کا مقصد اس بات کی طرف توجہ دلوانا مقصود ہے کہ بظاہر پڑھا لکھا ہونے کے باوجود انسان صحیح شے کو بھی نقصان دہ سمجھ سکتا ہے اور نقصان دہ شے کو فائدہ مند سمجھ سکتا ہے،تعریف کو تزلیل شمار کرسکتا ہے اور بے عزتیں میں اسے عزت نظر آ سکتی ہے۔
یہ سارا معاملہ ذہنی ،علمی وسعت،قلت کے نتیجے میں وجود میں آتا ہے۔ اسی طرح محدود علم و ماحول کے افراد جب دین کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو دین کی وسعت کو سمجھنے کے بجائے اپنی محدود سوچ سے دین کو سمجھتے ہیں اور سمجھانے کی بھی کوشش کرتے ہیں نتیجہ عالم اور ادھورے علم والے عالم کے درمیان جھگڑا ہوجاتا ہے اور بے چاری عوام پریشان حال سوائے پریشان ہونے کے یا دین سے متنفر ہونے کے کچھ حاصل نہیں کرپاتی۔
موجودہ دور میں امت کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لئے ایسے ہی ہتکنڈے استعمال کیئے جاتے ہیں کیونکہ عوام کا علماء سے خاص ربط ہے اور اگر عوام کو توڑنا ہے آپس میں لڑانا ہے تو علماء میں اختلاف پیدا کردو یا پرانے اختلاف کو اور ہوا دے کر تازہ کرو تاکہ مسلمان آپس میں ہی مشغول ہو جائیں ایک دوسرے کو کافر قرار دےنے لگیں اور اپنے اصل دشمن کو پہچاننے کے بجائے اسی کے آلہ کار بن جائیں۔
اسی فکر کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم نے کوشش شروع کی ہے کہ امت کا ایک بہت بڑا طبقہ ایک دوسرے کے پیچھے لگاہوا ہے بلکہ گستاخ سے بات بڑھ کر کفر کے فتوں تک جا پہنچی ہے اور اختلاف کی اصل حقیقت وہی مولوی صاحب اور وکیل والی ہے ۔
لھذا آپ کے لئیے انڈیا کے جید عالم حضرت مولانا طاہر حسین گیاوی دامت برکاتھم کے بیانات میں سے انتخاب کیا گیاہے۔آپ کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتے ہوں لیکن حق کی تلاش میں ہمشہ متلاشی رہتے ہونگے لھذا آپ سے درخواست ہے کہ آپ اس بیان کو ضرور ایک بار سنیں ۔سننے کے بعد فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہوگا کہ مولوی صاحب کا بندہ کہنا درست تھا یا وکیل صاحب کا ناراض ہونا۔
CLICK HERE TO listen
No comments:
Post a Comment
Plz turn of your sound volume bcoz there is music behind this video