Mar 30, 2009
Mar 29, 2009
انبیاء کے کرداروں پر مشتمل فلم کا حکم
سوال
کیا فرماتے ہیں علمأ کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:
میں نے بازار سے چند سی ڈیز خریدیں جو بظاہر حضرات انبیأ کرام علیہم السلام کی معلومات پر بنی تھیں، لیکن جب میں نے انہیں دیکھا تو ان میں باقاعدہ اردو زبان میں ترجمے کے ساتھ مختلف افراد کو انبیأعلیہم السلام کی شکل میں دکھاکر ان کی زندگی کے مختلف واقعات قلم بند کئے گئے تھے۔ حضرت یوسف علیہ السلام پر بنائی گئی فلم میں انہیں بازار میں فروخت ہوتے ہوئے‘ زلیخا کی جانب سے آپ سے جنسی تعلق قائم کرنے کی کوشش کرنے کے علاوہ حضرت یعقوب علیہ السلام سمیت ان کے تمام دس بیٹوں کو بھی دکھا یا گیا‘ فلم کے بعض مناظر میں حضرت یعقوب علیہ السلام کو (معاذ اللہ) اپنی حاملہ بیوی سے بوس وکنار کرتے‘ حضرت یعقوب علیہ السلام کی صاحبزادی کو شراب پیتے ہوئے بتایا گیا‘ بعد ازاں ان کے ساتھ زیادتی کا واقعہ بھی بنایاگیا۔حضرت سارہ کو نیم برہنہ حالت‘ حضرت یعقوب علیہ السلام کے اپنی خادمہ ہاجرہ کے ساتھ تعلقات اور اس کے نتیجے میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش بھی اسی فلم کا حصہ ہیں۔پردہ کے پیچھے سے آنے والی انسانی آواز کو اللہ کی آواز قرار دے کر حضرت یعقوب علیہ السلام کو ختنہ کے احکامات دئیے گئے ہیں‘ جبکہ ایک بڑی سی چادر اوڑھے شخص کو اللہ کہہ کر (معاذ اللہ) اس کے ہمراہ دو انسانوں کو فرشتوں کے روپ میں بھی دکھایا گیا ہے جو حضرت اسحاق علیہ السلام کی پیدائش کی خوشخبری دیتے ہیں۔فلم میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ حضرت اسحاق علیہ السلام کو قربان گاہ لے جانے اور مینڈھے کے آنے کے مناظر بھی موجود ہیں ”کلام مقدس“ کے نام سے بنائی گئی فلم میں زمین کی تخلیق کے مراحل‘ کلین شیو شخص کو مکمل برہنہ حالت میں حضرت آدم علیہ السلام اور مکمل برہنہ عورت کو حضرت حوا کے روپ میں پیش کرکے جنت سے پھل کھانے کے بعد دنیا میں بھیجے جانے کی تفصیلات موجود ہیں۔ اس تمام تفصیل کی روشنی میں سوال ہے کہ:الف: اس قسم کی سی ڈیز کی کھلے عام فروخت‘ اس کے بنانے والوں کے بارے میں شرعی حکم اور سزا کیا ہے؟ نیز حکومت اس کی روک تھام کی کس حد تک ذمہ دار ہے‘ اور اگر حکومت ایسی سی ڈیز کی روک تھام نہیں کرتی تو ایک عام مسلمان کس حد میں رہتے ہوئے ان سی ڈیز کے پھیلاؤ کو روک سکتا ہے؟ب: ان سی ڈیز کو کیبل نیٹ ورک پر چلانے والے کے لئے شرعی حکم کیا ہے؟ اور کیا ایسے کیبل نیٹ ورک کو مسلمان بزور قوت اس عمل سے باز رکھ سکتے ہیں؟
سائل : عارف محمود
گلشن ظہور ،جیکب لائن کراچی
جواب
دار الافتأ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی میں چند سی ڈیز‘ جوانبیأ اکرام علیہم السلام کے بارے میں بنائی گئی ہیں‘ لائی گئیں اور اس بارے میں ”دار الافتأ“ سے شرعی رائے پوچھی گئی اوران میں موجود مواد کی تفصیلات مذکورہ سوال میں ذکر کردی گئی ہیں‘ ان تفصیلات کے سامنے آنے کے بعد جواب دینے سے پہلے یہ بات پیش نظر رہنا ضروری ہے کہ حضرات انبیأ کرام علیہم السلام‘ جیسے مسلمانوں کے ہاں قابل احترام ہستیاں ہیں‘ اسی طرح عیسائیوں کے ہاں بھی قابل احترام ہستیاں ہیں‘ اور عیسائی ان ہستیوں کو اللہ تعالیٰ کے نبی اور رسول تسلیم کرتے ہیں‘ بایں ہمہ عیسائیوں کو ایسی حرکتیں کرنا قطعاً زیب نہیں دیتا‘ ان انبیأ کرام علیہم السلام کو مقدس اور قابل احترام جاننے اور ماننے کے دعوے کے بعد عیسائیوں کی‘ا س طرح کی نازیبااور سوقیانہ حرکتیں کرنا‘ انتہائی شرمناک‘افسوس ناک اور ناقابل فہم ہے۔عیسائیوں کی کسی تنظیم کی طرف سے حضرات انبیأ کرام علیہم السلام کے بارے میں اس طرح کی فحش اور گھٹیا فلمیں بناکر انبیأ کرام علیہم السلام کے روپ میں عام انسانوں کو نبی کے طور پر پیش کرنا‘ انبیأ کرام کی توہین وتنقیص ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ خود عیسائی نادانستہ طور پر یہودی لابی کی سازشوں کا شکار ہورہے ہوں، جیساکہ کلام مقدس کے نام کی سی ڈی کے ڈیزائن میں یہودیوں کا مشہور ومعروف چھ کونوں والا ستارہ نمایاں طور پر دکھا یا گیا ہے‘ دختران پولوس نامی عیسائی تنظیم ان سی ڈیز کی نشر واشاعت کا کام کر رہی ہے‘ حالانکہ پولوس در پردہ کٹر یہودی تھا جو دین عیسوی کو بگاڑنے کے لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں میں شامل ہوا تھا اور اسی کی سازشوں سے دین عیسوی کو بہت زیادہ نقصان ہوا (اور اپنی اصلی صورت تھوڑا عرصہ گذرنے کے بعد کھو بیٹھا) غالباً موجودہ زمانے میں اسی پولوس کے نام پر یہ دختران پولوس نامی تنظیم اسی کے مقصدکو پورا کرنے کے لئے کام کررہی ہے‘ تاکہ انبیأ کرام علیہم السلام کا جو احترام عیسائیوں کے دلوں میں ہے اس کو ان کے دلوں سے اکھاڑ پھینکا جائے‘ بہرحال اس کے پیچھے محرکات جو بھی ہوں‘ انبیأ کرام علیہم السلام‘ مسلمانوں کے ہاں معصوم اور گناہوں سے پاک ہستیاں ہیں‘ جیسے نبی آخر الزمان ا کی توہین وتنقیص کفر اور موجب سزائے موت ہے‘ اسی طرح دیگر تمام انبیأ کرام علیہم السلام یا ان میں سے کسی ایک نبی علیہ السلام کے بارے میں فلمیں بنوانا اور عام گناہگار انسانوں کو انبیأ کرام جیسی معصوم اور مقدس ہستیوں کے طور پر پیش کرنا اور اللہ تعالیٰ کے معصوم اور مقدس انبیأ کرام علیہم السلام کو نازیبا حرکتیں کرتے ہوئے دکھانا‘ انبیأ کرام کی کھلی توہین وتنقیص ہے۔لہذا حکومت وقت کا فرض ہے کہ وہ اس کفر وارتداد پھیلانے والی سی ڈیز کو ضبط کرکے ضائع کرے اور آئندہ کے لئے ایسا قانون پاس کرے ‘ جس سے ایسے کفریہ وتوہین آمیز کاموں کا سدِ باب ہوسکے، جیساکہ معلوم ہوا ہے کہ یہ سی ڈیز باہر سے در آمد کی گئیں ہیں، تو حکومت وقت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان ”سی ڈیز“ کے درآمد کرنے والوں اورتمام متعلقہ افراد کو عبرت ناک سزا دے اور ان سے سخت باز پرس کرکے مرتکب افراد کو کیفر کردار تک پہنچائے۔اس کے ساتھ علمأ کرام اور عوام کا فریضہ بنتا ہے کہ وہ ان سی ڈیز کے خلاف آواز بلند کریں اور ان کی بندش وضبطی کی ہر ممکن کوشش کریں‘ اور تاجر حضرات ان کی خرید وفروخت سے کلیةً باز آئیں کہ ان کی خرید وفروخت ناجائز وحرام ہے۔ان سی ڈیز میں توہین انبیأ کرام سے ہٹ کر بعض احکامات کو غلط انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے جیساکہ ”عمل ختنہ“ کو حضرت یعقوب علیہ السلام سے منسوب کیاگیاہے‘ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے یہ حکم ان سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر نازل کیا تھا‘ اسی طرح حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ حضرت اسحاق علیہ السلام کو ذبیح (قربان ہونے والا) دکھایا گیاہے‘ حالانکہ یہ بالکل غلط ہے۔ کیونکہ ذبیح حضرت اسماعیل علیہ السلام ہیں نہ کہ حضرت اسحاق علیہ السلام۔
الجواب صحیحح
کتبہ
محمد عبد المجید دین پوری
محمد داؤد
عبد الستار حامد
دار الافتاء بنوری ٹاوٴن کراچی
بینات شعبان المعظم ۱۴۲۶ھ بمطابق اکتوبر ۲۰۰۵ء
http://www.banuri.edu.pk/node/554
کیا فرماتے ہیں علمأ کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:
میں نے بازار سے چند سی ڈیز خریدیں جو بظاہر حضرات انبیأ کرام علیہم السلام کی معلومات پر بنی تھیں، لیکن جب میں نے انہیں دیکھا تو ان میں باقاعدہ اردو زبان میں ترجمے کے ساتھ مختلف افراد کو انبیأعلیہم السلام کی شکل میں دکھاکر ان کی زندگی کے مختلف واقعات قلم بند کئے گئے تھے۔ حضرت یوسف علیہ السلام پر بنائی گئی فلم میں انہیں بازار میں فروخت ہوتے ہوئے‘ زلیخا کی جانب سے آپ سے جنسی تعلق قائم کرنے کی کوشش کرنے کے علاوہ حضرت یعقوب علیہ السلام سمیت ان کے تمام دس بیٹوں کو بھی دکھا یا گیا‘ فلم کے بعض مناظر میں حضرت یعقوب علیہ السلام کو (معاذ اللہ) اپنی حاملہ بیوی سے بوس وکنار کرتے‘ حضرت یعقوب علیہ السلام کی صاحبزادی کو شراب پیتے ہوئے بتایا گیا‘ بعد ازاں ان کے ساتھ زیادتی کا واقعہ بھی بنایاگیا۔حضرت سارہ کو نیم برہنہ حالت‘ حضرت یعقوب علیہ السلام کے اپنی خادمہ ہاجرہ کے ساتھ تعلقات اور اس کے نتیجے میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش بھی اسی فلم کا حصہ ہیں۔پردہ کے پیچھے سے آنے والی انسانی آواز کو اللہ کی آواز قرار دے کر حضرت یعقوب علیہ السلام کو ختنہ کے احکامات دئیے گئے ہیں‘ جبکہ ایک بڑی سی چادر اوڑھے شخص کو اللہ کہہ کر (معاذ اللہ) اس کے ہمراہ دو انسانوں کو فرشتوں کے روپ میں بھی دکھایا گیا ہے جو حضرت اسحاق علیہ السلام کی پیدائش کی خوشخبری دیتے ہیں۔فلم میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ حضرت اسحاق علیہ السلام کو قربان گاہ لے جانے اور مینڈھے کے آنے کے مناظر بھی موجود ہیں ”کلام مقدس“ کے نام سے بنائی گئی فلم میں زمین کی تخلیق کے مراحل‘ کلین شیو شخص کو مکمل برہنہ حالت میں حضرت آدم علیہ السلام اور مکمل برہنہ عورت کو حضرت حوا کے روپ میں پیش کرکے جنت سے پھل کھانے کے بعد دنیا میں بھیجے جانے کی تفصیلات موجود ہیں۔ اس تمام تفصیل کی روشنی میں سوال ہے کہ:الف: اس قسم کی سی ڈیز کی کھلے عام فروخت‘ اس کے بنانے والوں کے بارے میں شرعی حکم اور سزا کیا ہے؟ نیز حکومت اس کی روک تھام کی کس حد تک ذمہ دار ہے‘ اور اگر حکومت ایسی سی ڈیز کی روک تھام نہیں کرتی تو ایک عام مسلمان کس حد میں رہتے ہوئے ان سی ڈیز کے پھیلاؤ کو روک سکتا ہے؟ب: ان سی ڈیز کو کیبل نیٹ ورک پر چلانے والے کے لئے شرعی حکم کیا ہے؟ اور کیا ایسے کیبل نیٹ ورک کو مسلمان بزور قوت اس عمل سے باز رکھ سکتے ہیں؟
سائل : عارف محمود
گلشن ظہور ،جیکب لائن کراچی
جواب
دار الافتأ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی میں چند سی ڈیز‘ جوانبیأ اکرام علیہم السلام کے بارے میں بنائی گئی ہیں‘ لائی گئیں اور اس بارے میں ”دار الافتأ“ سے شرعی رائے پوچھی گئی اوران میں موجود مواد کی تفصیلات مذکورہ سوال میں ذکر کردی گئی ہیں‘ ان تفصیلات کے سامنے آنے کے بعد جواب دینے سے پہلے یہ بات پیش نظر رہنا ضروری ہے کہ حضرات انبیأ کرام علیہم السلام‘ جیسے مسلمانوں کے ہاں قابل احترام ہستیاں ہیں‘ اسی طرح عیسائیوں کے ہاں بھی قابل احترام ہستیاں ہیں‘ اور عیسائی ان ہستیوں کو اللہ تعالیٰ کے نبی اور رسول تسلیم کرتے ہیں‘ بایں ہمہ عیسائیوں کو ایسی حرکتیں کرنا قطعاً زیب نہیں دیتا‘ ان انبیأ کرام علیہم السلام کو مقدس اور قابل احترام جاننے اور ماننے کے دعوے کے بعد عیسائیوں کی‘ا س طرح کی نازیبااور سوقیانہ حرکتیں کرنا‘ انتہائی شرمناک‘افسوس ناک اور ناقابل فہم ہے۔عیسائیوں کی کسی تنظیم کی طرف سے حضرات انبیأ کرام علیہم السلام کے بارے میں اس طرح کی فحش اور گھٹیا فلمیں بناکر انبیأ کرام علیہم السلام کے روپ میں عام انسانوں کو نبی کے طور پر پیش کرنا‘ انبیأ کرام کی توہین وتنقیص ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ خود عیسائی نادانستہ طور پر یہودی لابی کی سازشوں کا شکار ہورہے ہوں، جیساکہ کلام مقدس کے نام کی سی ڈی کے ڈیزائن میں یہودیوں کا مشہور ومعروف چھ کونوں والا ستارہ نمایاں طور پر دکھا یا گیا ہے‘ دختران پولوس نامی عیسائی تنظیم ان سی ڈیز کی نشر واشاعت کا کام کر رہی ہے‘ حالانکہ پولوس در پردہ کٹر یہودی تھا جو دین عیسوی کو بگاڑنے کے لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں میں شامل ہوا تھا اور اسی کی سازشوں سے دین عیسوی کو بہت زیادہ نقصان ہوا (اور اپنی اصلی صورت تھوڑا عرصہ گذرنے کے بعد کھو بیٹھا) غالباً موجودہ زمانے میں اسی پولوس کے نام پر یہ دختران پولوس نامی تنظیم اسی کے مقصدکو پورا کرنے کے لئے کام کررہی ہے‘ تاکہ انبیأ کرام علیہم السلام کا جو احترام عیسائیوں کے دلوں میں ہے اس کو ان کے دلوں سے اکھاڑ پھینکا جائے‘ بہرحال اس کے پیچھے محرکات جو بھی ہوں‘ انبیأ کرام علیہم السلام‘ مسلمانوں کے ہاں معصوم اور گناہوں سے پاک ہستیاں ہیں‘ جیسے نبی آخر الزمان ا کی توہین وتنقیص کفر اور موجب سزائے موت ہے‘ اسی طرح دیگر تمام انبیأ کرام علیہم السلام یا ان میں سے کسی ایک نبی علیہ السلام کے بارے میں فلمیں بنوانا اور عام گناہگار انسانوں کو انبیأ کرام جیسی معصوم اور مقدس ہستیوں کے طور پر پیش کرنا اور اللہ تعالیٰ کے معصوم اور مقدس انبیأ کرام علیہم السلام کو نازیبا حرکتیں کرتے ہوئے دکھانا‘ انبیأ کرام کی کھلی توہین وتنقیص ہے۔لہذا حکومت وقت کا فرض ہے کہ وہ اس کفر وارتداد پھیلانے والی سی ڈیز کو ضبط کرکے ضائع کرے اور آئندہ کے لئے ایسا قانون پاس کرے ‘ جس سے ایسے کفریہ وتوہین آمیز کاموں کا سدِ باب ہوسکے، جیساکہ معلوم ہوا ہے کہ یہ سی ڈیز باہر سے در آمد کی گئیں ہیں، تو حکومت وقت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان ”سی ڈیز“ کے درآمد کرنے والوں اورتمام متعلقہ افراد کو عبرت ناک سزا دے اور ان سے سخت باز پرس کرکے مرتکب افراد کو کیفر کردار تک پہنچائے۔اس کے ساتھ علمأ کرام اور عوام کا فریضہ بنتا ہے کہ وہ ان سی ڈیز کے خلاف آواز بلند کریں اور ان کی بندش وضبطی کی ہر ممکن کوشش کریں‘ اور تاجر حضرات ان کی خرید وفروخت سے کلیةً باز آئیں کہ ان کی خرید وفروخت ناجائز وحرام ہے۔ان سی ڈیز میں توہین انبیأ کرام سے ہٹ کر بعض احکامات کو غلط انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے جیساکہ ”عمل ختنہ“ کو حضرت یعقوب علیہ السلام سے منسوب کیاگیاہے‘ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے یہ حکم ان سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر نازل کیا تھا‘ اسی طرح حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ حضرت اسحاق علیہ السلام کو ذبیح (قربان ہونے والا) دکھایا گیاہے‘ حالانکہ یہ بالکل غلط ہے۔ کیونکہ ذبیح حضرت اسماعیل علیہ السلام ہیں نہ کہ حضرت اسحاق علیہ السلام۔
الجواب صحیحح
کتبہ
محمد عبد المجید دین پوری
محمد داؤد
عبد الستار حامد
دار الافتاء بنوری ٹاوٴن کراچی
بینات شعبان المعظم ۱۴۲۶ھ بمطابق اکتوبر ۲۰۰۵ء
http://www.banuri.edu.pk/node/554
معیارحق۔ عصمت و حفاظت۔ تنقید صحاب
سوال
۱۔ معیار حق کی تعریف و تشریح کیجئے۔
۲۔کیا صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین معیار حق ہیں؟ اگر معیار حق ہیں تو ان کے درمیان جو اختلاف آتاہے اس وقت ایک رائے کو لینے اور دوسری رائے کو چھوڑنے سے کیامعیار حق پر اثر نہیں پڑے گا؟
۳۔کیا رضاء الہٰی کی وجہ سے گناہوں سے حفاظت ہوتی ہے جیسا کہ عصمت سے ہوتی ہے؟
۴۔کیا صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین پر تنقید کرنا جائزہے؟ اگر ہے تو کسی نے کسی صحابی پر تنقید کی ہے؟
۵۔اگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر تنقید جائز سمجھی جائے توکیا اس آیت کریمہ پر اثر نہیں پڑے گا؟
”واعلموا أن فیکم رسول اللّٰہ لو یطیعکم فی کثیر من الأمر لعنتم ولکن الله حبب الیکم الإیمان وزیّنہ فی قلوبکم وکرّہ الیکم الکفر والفسوق والعصیان“۔ آلایة (الحجرات :۷)
۶۔کیا ایسی بھی کوئی جگہ ہے کہ صحابہ کی رائے ہوتے ہوئے کسی نے اپنی رائے پر عمل کیا ہو اور صحابی کی رائے کو چھوڑ دیا ہو۔؟
جواب
۱۔معیار حق کوئی قرآنی یا حدیثی، فقہی اصطلاح نہیں،ایک خاص مفہوم کے پیش نظر ادبی وانشائی طور پر یہ لفظ استعمال کیا گیاہے۔
”کل یوٴخذ من قولہ و یترک إلا صاحب ھذا القبر صلی الله علیہ وسلم“۔
جیسا کہ امام مالک کا مقولہ ہے۔ اس مفہوم کو ادا کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ لیکن اس کو جس مفہوم میں استعمال کرنے کے بعد اس سے جو نتائج نکالے جارہے ہیں۔ اکثر صحیح نہیں ہے۔
۲۔سنت اور بدعت کے درمیان بنیادی فرق یہی ہے، کہ جو عہد نبوت اور عہد خلافت راشدہ وعہد صحابہ میں دین کا جزو نہ بن سکا۔ (۱)
اس لئے احادیث میں سنت نبویہ اور سنت خلفاء راشدین کے تمسک کا حکم دیا گیا
(۲)اور صحابہ کے بارے میں تصریح فرمادی گئی کہ جو دین کا کام وہ کریں گے وہ غلط نہیں ہوسکتا وہ بدعت نہ ہوگی۔ اگر اختلاف پایا جائے تو ان میں سے کسی کو بھی اختیار کیا جائے توخروج عن الدین نہ ہوگا۔ (۳)اور اگر سب متفق ہوگئے تو صورت اجماع کی ہوجاتی ہے، اتباع اس کی فرض ہوجاتی ہے اب کوئی شخص یہ کہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین معیار حق نہیں ہیں، صرف آنحضرت صلی الله علیہ وسلم معیار حق ہیں تو اس کا حاصل یہ نکلتا ہے کہ اگر حدیث نبوی موجود نہیں تو تعامل صحابہ یا سنت صحابہ حجت نہیں یہ کتنی غلط بات ہوگی اور اس پر مستزاد یہ بھی کہا جائے کہ کبھی کبھی انبیاء سے بتقاضائے شریعت ایسی بات ظہو رمیں آسکتی ہے جو عصمت کے خلاف ہو تو بات انتہائی خطرناک صورت اختیار کرلیتی ہے ،گویا نبی باوجود عصمت کے احیاناً غیر معصوم ہوسکتاہے اس طرح عصمت سے بھی امان اُٹھ جاتاہے، ہر وقت یہ احتمال قائم رہتاہے، کہ اس وقت شاید وہ غیر معصومانہ حالت ہو۔
۳۔رضاء الہٰی سے اتنی بات ضرور ثابت ہوجاتی ہے کہ صحابی سے کوئی بات ایسی ظاہر نہیں ہوسکتی ہے جو نجات کے منافی ہو اگر کوئی شخص غیر معصوم بھی ہو تو یہ کیا ضروری ہے کہ وہ ضرور اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف کام کرے گا؟ اور گناہ بھی کرے گا؟ بہت سے صالحین امت غیر معصوم ہیں، لیکن اس کے باوجود ان سے کوئی گناہ نہیں ہوتا۔ عصمت سے گناہ کا صدور ہو نہیں سکتا، رضاء کا ثمرہ یہ ہے کہ گناہ ہوتا نہیں اگر چہ ناممکن نہ ہونے کا امکان ہے۔ لیکن کسی چیز کے امکان کے لئے کیا یہ ضروری ہے کہ واقع ہوجائے۔ بہرحال اس کو محفوظ کہیں یا اور کوئی لفظ اس حقیقت کو ظاہر کرے۔
۴۔صحابہ ہماری تنقید سے بالا تر ہیں۔”الله، الله فی اصحابی لا تتخذوھم غرضاً من بعدی“…الخ وغیرہ احادیث میں تصریح ہے۔(۴)
۵۔جواب نمبر۴ سے جواب معلوم ہوگیا تنقید جائز نہیں۔
۶۔بظاہر اس کی نظیر اختلافات ائمہ میں نہیں ملے گی، کہ حدیث میں کوئی تصریح نہ ہو، اور پھر صحابہ میں ان کا تعامل موجود ہو، اس کو ترک کردیا جائے، اور صرف اپنی رائے سے کام لیا جائے، البتہ اس کے نظائر بہت ہیں ،کہ صحابہ میں آراء کااختلاف رہا‘ان میں کسی ایک کو ترک کیا گیا ،اور دوسرے کو اختیار کیا گیا۔اس وقت بہت عجلت میں یہ چند سطریں لکھ سکا، مزید تفصیل و دلائل کی اس وقت فرصت نہیں۔
فقط والله اعلم
بینات -ذوالقعدہ۱۳۸۵ھ مطابق مارچ ۱۹۶۶ء
جلد : ۷ شمارہ:۵ ,ص: ۵۷، ۵۹
حوالہ جات
________________________________________________________________________
(۱) ”الابداع فی مضار الابتداع ،للشیخ علی محفوظ- طریقة ثانیة فی معنی البدعة“ -ص:۱۷، ط:المکتبة العلمیة بالمدینة المنورة۔الطبعة الخامسة۱۳۹۱ھمطابق ۱۹۷۱ء ولفظہ: ”ما احدث بعدہ صلی اللہ علیہ وسلم أو بعد القرون المشھود لھم بالخیرخیراً کان او شراً عبادةً او عادةًوھی مایراد بہ عرض دنیوی…الخ“۔
(۲) سنن الترمذی - ابواب المناقب- باب من سب اصحاب النبی -۲/۲۲۵․ط: ایچ ،ایم سعید کراچی ۱۹۸۸ء۔
(۳) مشکوةالمصابیح،باب الاعتصام بالکتاب والسنة ، الفصل الثانی ،عن العرباض بن ساریة … فعلیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین المھدیین-۱/۲۹،۳۰․ط: قدیمی کراچی ۱۳۶۸ھ۔
(۴)مشکوة المصابیح ،باب مناقب الصحابة ، الفصل الثانی،-۲/۵۵۴۔ط: قدیمی ۱۳۶۸ھ کراچی، وفیہ ایضاً۔عن عمر بن الخطاب رضی الله عنہ قال: سمعت رسول الله یقول: سألت ربی عن اختلاف اصحابی من بعدی فاوحی الی یا محمد! ان اصحابک عندی بمنزلة النجوم فی السماء بعضھا اقوی من بعض ولکل نور فمن اخذ بشئ مما ھم علیہ من اختلافھم فھو عندی علی ھدی
۱۔ معیار حق کی تعریف و تشریح کیجئے۔
۲۔کیا صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین معیار حق ہیں؟ اگر معیار حق ہیں تو ان کے درمیان جو اختلاف آتاہے اس وقت ایک رائے کو لینے اور دوسری رائے کو چھوڑنے سے کیامعیار حق پر اثر نہیں پڑے گا؟
۳۔کیا رضاء الہٰی کی وجہ سے گناہوں سے حفاظت ہوتی ہے جیسا کہ عصمت سے ہوتی ہے؟
۴۔کیا صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین پر تنقید کرنا جائزہے؟ اگر ہے تو کسی نے کسی صحابی پر تنقید کی ہے؟
۵۔اگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر تنقید جائز سمجھی جائے توکیا اس آیت کریمہ پر اثر نہیں پڑے گا؟
”واعلموا أن فیکم رسول اللّٰہ لو یطیعکم فی کثیر من الأمر لعنتم ولکن الله حبب الیکم الإیمان وزیّنہ فی قلوبکم وکرّہ الیکم الکفر والفسوق والعصیان“۔ آلایة (الحجرات :۷)
۶۔کیا ایسی بھی کوئی جگہ ہے کہ صحابہ کی رائے ہوتے ہوئے کسی نے اپنی رائے پر عمل کیا ہو اور صحابی کی رائے کو چھوڑ دیا ہو۔؟
جواب
۱۔معیار حق کوئی قرآنی یا حدیثی، فقہی اصطلاح نہیں،ایک خاص مفہوم کے پیش نظر ادبی وانشائی طور پر یہ لفظ استعمال کیا گیاہے۔
”کل یوٴخذ من قولہ و یترک إلا صاحب ھذا القبر صلی الله علیہ وسلم“۔
جیسا کہ امام مالک کا مقولہ ہے۔ اس مفہوم کو ادا کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ لیکن اس کو جس مفہوم میں استعمال کرنے کے بعد اس سے جو نتائج نکالے جارہے ہیں۔ اکثر صحیح نہیں ہے۔
۲۔سنت اور بدعت کے درمیان بنیادی فرق یہی ہے، کہ جو عہد نبوت اور عہد خلافت راشدہ وعہد صحابہ میں دین کا جزو نہ بن سکا۔ (۱)
اس لئے احادیث میں سنت نبویہ اور سنت خلفاء راشدین کے تمسک کا حکم دیا گیا
(۲)اور صحابہ کے بارے میں تصریح فرمادی گئی کہ جو دین کا کام وہ کریں گے وہ غلط نہیں ہوسکتا وہ بدعت نہ ہوگی۔ اگر اختلاف پایا جائے تو ان میں سے کسی کو بھی اختیار کیا جائے توخروج عن الدین نہ ہوگا۔ (۳)اور اگر سب متفق ہوگئے تو صورت اجماع کی ہوجاتی ہے، اتباع اس کی فرض ہوجاتی ہے اب کوئی شخص یہ کہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین معیار حق نہیں ہیں، صرف آنحضرت صلی الله علیہ وسلم معیار حق ہیں تو اس کا حاصل یہ نکلتا ہے کہ اگر حدیث نبوی موجود نہیں تو تعامل صحابہ یا سنت صحابہ حجت نہیں یہ کتنی غلط بات ہوگی اور اس پر مستزاد یہ بھی کہا جائے کہ کبھی کبھی انبیاء سے بتقاضائے شریعت ایسی بات ظہو رمیں آسکتی ہے جو عصمت کے خلاف ہو تو بات انتہائی خطرناک صورت اختیار کرلیتی ہے ،گویا نبی باوجود عصمت کے احیاناً غیر معصوم ہوسکتاہے اس طرح عصمت سے بھی امان اُٹھ جاتاہے، ہر وقت یہ احتمال قائم رہتاہے، کہ اس وقت شاید وہ غیر معصومانہ حالت ہو۔
۳۔رضاء الہٰی سے اتنی بات ضرور ثابت ہوجاتی ہے کہ صحابی سے کوئی بات ایسی ظاہر نہیں ہوسکتی ہے جو نجات کے منافی ہو اگر کوئی شخص غیر معصوم بھی ہو تو یہ کیا ضروری ہے کہ وہ ضرور اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف کام کرے گا؟ اور گناہ بھی کرے گا؟ بہت سے صالحین امت غیر معصوم ہیں، لیکن اس کے باوجود ان سے کوئی گناہ نہیں ہوتا۔ عصمت سے گناہ کا صدور ہو نہیں سکتا، رضاء کا ثمرہ یہ ہے کہ گناہ ہوتا نہیں اگر چہ ناممکن نہ ہونے کا امکان ہے۔ لیکن کسی چیز کے امکان کے لئے کیا یہ ضروری ہے کہ واقع ہوجائے۔ بہرحال اس کو محفوظ کہیں یا اور کوئی لفظ اس حقیقت کو ظاہر کرے۔
۴۔صحابہ ہماری تنقید سے بالا تر ہیں۔”الله، الله فی اصحابی لا تتخذوھم غرضاً من بعدی“…الخ وغیرہ احادیث میں تصریح ہے۔(۴)
۵۔جواب نمبر۴ سے جواب معلوم ہوگیا تنقید جائز نہیں۔
۶۔بظاہر اس کی نظیر اختلافات ائمہ میں نہیں ملے گی، کہ حدیث میں کوئی تصریح نہ ہو، اور پھر صحابہ میں ان کا تعامل موجود ہو، اس کو ترک کردیا جائے، اور صرف اپنی رائے سے کام لیا جائے، البتہ اس کے نظائر بہت ہیں ،کہ صحابہ میں آراء کااختلاف رہا‘ان میں کسی ایک کو ترک کیا گیا ،اور دوسرے کو اختیار کیا گیا۔اس وقت بہت عجلت میں یہ چند سطریں لکھ سکا، مزید تفصیل و دلائل کی اس وقت فرصت نہیں۔
فقط والله اعلم
بینات -ذوالقعدہ۱۳۸۵ھ مطابق مارچ ۱۹۶۶ء
جلد : ۷ شمارہ:۵ ,ص: ۵۷، ۵۹
حوالہ جات
________________________________________________________________________
(۱) ”الابداع فی مضار الابتداع ،للشیخ علی محفوظ- طریقة ثانیة فی معنی البدعة“ -ص:۱۷، ط:المکتبة العلمیة بالمدینة المنورة۔الطبعة الخامسة۱۳۹۱ھمطابق ۱۹۷۱ء ولفظہ: ”ما احدث بعدہ صلی اللہ علیہ وسلم أو بعد القرون المشھود لھم بالخیرخیراً کان او شراً عبادةً او عادةًوھی مایراد بہ عرض دنیوی…الخ“۔
(۲) سنن الترمذی - ابواب المناقب- باب من سب اصحاب النبی -۲/۲۲۵․ط: ایچ ،ایم سعید کراچی ۱۹۸۸ء۔
(۳) مشکوةالمصابیح،باب الاعتصام بالکتاب والسنة ، الفصل الثانی ،عن العرباض بن ساریة … فعلیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین المھدیین-۱/۲۹،۳۰․ط: قدیمی کراچی ۱۳۶۸ھ۔
(۴)مشکوة المصابیح ،باب مناقب الصحابة ، الفصل الثانی،-۲/۵۵۴۔ط: قدیمی ۱۳۶۸ھ کراچی، وفیہ ایضاً۔عن عمر بن الخطاب رضی الله عنہ قال: سمعت رسول الله یقول: سألت ربی عن اختلاف اصحابی من بعدی فاوحی الی یا محمد! ان اصحابک عندی بمنزلة النجوم فی السماء بعضھا اقوی من بعض ولکل نور فمن اخذ بشئ مما ھم علیہ من اختلافھم فھو عندی علی ھدی
Mar 7, 2009
Mar 6, 2009
Mar 5, 2009
ناپاکی کی حالت میں تلاوت قرآن اور عورت کی امامت کا حکم
مولوی محمد شبیر
ناپاکی کی حالت میں تلاوتِ قرآن اور عورت کی امامت کا حکم!
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ: ”الہدیٰ انٹرنیشنل“ ایک دینی ادارہ کہلاتا ہے، کیا اس ادارے والے صحیح المسلک اور متبع سنت ہیں یا نہیں ؟یہاں تعلیم حاصل کرنے والی چند خواتین جوکہ قرآن کریم کی تجوید درست کرنے یا علم دین حاصل کرنے کی طلب میں ان مدارس میں گئیں‘ لیکن وہاں چند ایسے مسائل سامنے آئے کہ عجیب تذبذب اور پریشانی کا شکار ہوگئیں‘ آپ سے درخواست ہے کہ کافی شافی اور تفصیلی جواب عنایت فرمایئے اور امت مسلمہ کے تذبذب کو دور فرمایئے اور گمراہی سے بچایئے ۔ اسی طرح پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ایک شہر میں لڑکیوں کا ایک مدرسہ ہے‘ جس کی صدر مدرسہ یا منتظمہ ایک خاتون ہیں ‘یہ خاتون غیر شادی شدہ ہیں۔ نیز یہ جامعہ‘ صرف بنات کا ہے۔ یہاں کا سارا نظام موصوفہ یا یہیں کی تعلیم یافتہ چند خواتین سنبھالتی ہیں‘ یہ بھی غیر شادی شدہ ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ یہاں کی انتظامیہ میں کسی مرد کاکوئی عمل دخل نہیں ہے اور جس طرح یہ تمام خواتین غیر شادی شدہ ہیں۔ اسی طرح یہاں کی تمام طالبات بھی غیر شادی شدہ ہیں۔ اگر کسی طالبہ کے بارے میں یہ علم ہوجائے کہ یہ شادی شدہ ہے تو اسے خارج کردیا جاتاہے اورایسی طالبہ کے لئے تعلیم جاری رکھنے کی کوئی گنجائش نہیں رہتی‘ ممکن ہے کہ یہ کسی مصلحت کے تحت ہو۔ سوال یہ ہے کہ ان کا یہ فعل اسلامی ہے یا غیر اسلامی؟ جبکہ رسول اللہ ا نے فرمایا ہے کہ: ”النکاح من سنتی‘ وفی روایة: فمن رغب عن سنتی فلیس منی“
یعنی نکاح کرنا میری سنت میں سے ہے‘ سو جس نے میری سنت سے اعراض کیا وہ مجھ میں سے نہیں۔ کیا شادی شدہ عورت دین کی تعلیم حاصل نہیں کرسکتی؟مذکورہ مدرسہ کی تعلیم یافتہ بعض فاضلات ملک کے دوسرے شہروں میں بھی ان کے تعلیمی نظام کے مطابق مدارس چلا رہی ہیں‘ جہاں تجوید قرآن کریم اور ترجمہ وحدیث وغیرہ علوم کی بھی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس ساری تمہید کے بعد دریافت یہی کرنا ہے کہ یہاں مدارس میں کچھ ایسے مسائل سامنے آئے جو سنت نبوی اور حنفی مسلک سے ہٹے ہوئے نظر آئے‘ جبکہ یہ خواتین اپنے آپ کو حنفی سنی بتاتی ہیں۔ وہ مسائل ذیل میں لکھے جارہے ہیں:۱-یہ خواتین کون سے مسلک سے تعلق رکھتی ہیں ۔ نیز ان مدارس میں تعلیم حاصل کرنا یا ان کی کسی اور طریقے سے معاونت کرنے کے بارے میں شریعت کیا کہتی ہے؟
۲- ان مدارس میں حیض ونفاس کے ایام میں قرآن کریم پڑھایا جاتا ہے یعنی حائضہ قرآن کریم پڑھتی بھی ہے اور پڑھاتی بھی ہے اور کپڑے ‘ تولیہ وغیرہ سے مستقل قرآن کریم پکڑے بھی رہتی ہے اور ایک دو گھنٹے تک پکڑے رہنے کی وجہ سے کبھی کبھی قرآن کریم کے صفحات پر ہاتھ بھی لگ جاتاہے۔
۳-ان مدارس میں خواتین کی جماعت کرائی جاتی ہے‘ اس صورت میں کہ عورت ہی امام اور عورت ہی مقتدی ہوتی ہے‘ خاص طور پر نوافل کی جماعت جس میں ہرجمعہ کو صلوٰة التسبیح بڑے اہتمام سے پڑھائی جاتی ہے‘ دور دور سے خواتین اس نماز میں شریک ہونے کے لئے آتی ہیں‘ نیز اس طرح رمضان المبارک میں تراویح کی جماعت بھی بڑے اہتمام سے کروائی جاتی ہے اور اس میں زیادہ اجر وثواب سمجھاجاتاہے اور باقاعدہ خواتین کو جمع کیا جاتاہے۔ کیا شریعت کی رو سے خواتین کی جماعت خصوصاً نفل جماعت کرنا جائز ہے؟
۴- یہاں کی معلمات اور صدر مدرسہ بھی دور دراز سفر کرکے بغیر محرم کے تنہاء اور چند خواتین مل کر بھی بذریعہ جہاز یا ریل گاڑی سے طے کر لیتی ہیں‘ مثلاً: پنجاب سے کراچی اور کراچی سے پنجاب سفر کرنا تو معمولی بات ہے۔کیا خواتین کا تنہاء بغیر محرم کے سفر کرنا شریعت کی رو سے جائز ہے؟
۵- خواتین حیض کے ایام میں جو گدّی وغیرہ استعمال کرتی ہیں اس کو دھونے کی خاص تاکید کی جاتی ہے اور یہ حدیث سنائی جاتی ہے کہ : ”جو عورت حیض کی استعمال شدہ گدّی نہ دھوئے اور پھینک دے تو وہ قیامت کے دن ترکرکے اس کے منہ میں نچوڑی جائے گی“۔ اس حدیث کا کیا حکم ہے؟ نیز حیض کی استعمال شدہ گدی کو دھونے یا پھینک دینے کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟۔
۶- ان مدارس کی تعلیمات کے مطابق خواتین کو نماز مردوں کے طریقے سے پڑھائی جاتی ہے‘ کیا عورتوں اور مردوں کی نماز کے طریقے میں کوئی فرق نہیں ہے؟ جبکہ مفتی عبد الرؤف سکھروی صاحب کا تحریر شدہ ایک فتویٰ جو کہ کتابچے کی شکل میں ”خواتین کی نماز“ کے نام سے موجود ہے‘ اس میں احادیث سے ثابت کیا گیا ہے کہ خواتین کی نماز کا طریقہ مردوں کی نماز سے مختلف ہے اور چاروں ائمہ اس پر متفق ہیں۔ اگر ائمہ اربعہ اس پر متفق ہیں تو پھر اس بارے میں اپنے آپ کو حق پر ثابت کرنا اور یہ دلیل دینا کہ حضور علیہ السلام مردوں کے لئے بھی نبی تھے اور عورتوں کے لئے بھی‘ لہذا جیسی نماز انہوں نے پڑھی‘ عورتیں بھی ویسی نماز پڑھیں گی اور بخاری شریف کی احادیث کا حوالہ دیتی ہیں‘ جبکہ بخاری شریف میں جہاں آپ علیہ السلام کی نمازوں کا ذکر ہے وہاں کہیں بھی یہ نہیں لکھا ہے کہ عورتیں بھی بالکل ایسی ہی نماز پڑھیں‘ اسی طرح اور بھی کچھ مسائل سمجھ میں نہ آنے والے ہیں۔ مستفتی: محمد اعظم شبیر‘ باغ رضوان‘ بلاک نمبر: ۱۶ گلشن اقبال کراچی۔
الجواب باسمہ تعالیٰ
الہدیٰ انٹرنیشنل اورسوال میں مذکور پنجاب کا مدرسہ یہ دونوں الگ الگ ادارے ہیں۔ دونوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ الہدیٰ انٹرنیشنل کی بانی اور منتظمہ آکسفورڈ یونیورسٹی کی تعلیم یافتہ ہیں‘ انہوں نے وہاں کے غیر مسلم اور مستشرق پروفیسرز سے دینِ اسلام کی تعریف‘ تشریح اور تعبیر سیکھی ہے اور اب پاکستان میں آکر دینِ اسلام اور اہلِ اسلام کو تختہٴ مشق بنائے ہوئے ہے۔ اس صاحبہ اور ان کے ادارہ کی خواتین کی دعوت کا محور اکثر ایسے پوش علاقے ہیں جن میں مغربی تعلیم گاہوں کے تعلیم یافتہ لوگ رہائش پذیر ہوتے ہیں‘ ان صاحبہ اور ان کے ادارہ کی مبلغات ومعلمات کے ضال ومضل (خودگمراہ اور گمراہ کرنے والیاں) ہونے میں کسی قسم کا شک وشبہ نہیں‘ علماء امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ موصوفہ اہل سنت وجماعت کے کسی راسخ العقیدہ گروہ سے تعلق نہیں رکھتی‘ بلکہ وہ خود کو کسی بھی صحیح العقیدہ طبقہ سے منسوب کرنے کو ناجائز سمجھتی ہے۔ اس لئے مذکورہ خاتون تو اپنے خود ساختہ افکار ونظریات اور نفسانی خواہشات کی پیروکار ہے‘ ان کا کسی دیندار مسلک سے کوئی تعلق نہیں‘ لہذا ان کے اداروں میں تعلیم حاصل کرنا‘ ان کے پروگراموں میں شریک ہونا اور ان کے ساتھ کسی قسم کا جانی‘ مالی اور اخلاقی تعاون کرنا قطعاً جائز نہیں۔ البتہ پنجاب کے جس مدرسہ اور ان کی منتظمہ کا ذکر فر مایاہے‘ بظاہر یہ مدرسہ پہلے والے ادارے ․․․الہدیٰ انٹرنیشنل․․․ سے الگ ادارہ ہے۔ اہل سنت والجماعت ․․․علماء دیوبند․․․ کی طرف اپنی نسبت کرنے والے لوگوں کا ہے‘ لیکن کسی نسبت کے صحیح ہونے کے لئے اس نسبت کے تقاضوں کا پورا ہونا شرط ہے‘ مذکورہ ادارہ کی خواتین اگر اپنے افکار ونظریات میں جمہور علماء دیوبند کو اپنا مقتدیٰ اور پیشوا قرار نہیں دیتیں اور ایام حیض میں بچیوں کو قرآن کریم پڑھنے‘ پڑھانے کی اجازت دیتی ہیں اور ادارہ میں پڑھنے پڑھانے کے لئے غیر شادی شدہ کی شرط کسی فاسد نظریہ وفکر کی بنیاد پر لگاتی ہیں اور اس کے علاوہ سوال نامہ میں جن امور سے متعلق سوال کیا گیا ہے‘ ان امور میں اپنے آپ کو فقہاء احناف اور جمہور علماء دیوبند کے مسلک کی پابند نہیں سمجھتیں ‘ بلکہ آزاد سمجھتی ہیں تو اس ادارہ کی خواتین سے غیر شرعی طریقہٴ تعلیم کے تحت تعلیم حاصل کرنا‘ جمہورکے مسلک کے خلاف اعمال میں شرکت کرنا اور ان کے ساتھ اس طریقہٴ تعلیم اور طرزِ تعلیم اور طرزِ عمل میں کسی قسم کی معاونت کرنا دینی نقصان ہونے کی بناء پر ناجائز ہوگا ۔ ۲- حائضہ عورت کے لئے قرآن کریم کو چھونا جائز نہیں ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:”لایمسہ الا المطہرون“ (واقعہ:۷۹)
یعنی ا س کو وہی چھوتے ہیں جو پاک بنائے گئے ہیں۔ اس آیت کریمہ کا مطلب مفسرین نے یہ بیان کیا ہے کہ مصحف قرآن کو بغیر طہارت کے چھونا جائز نہیں۔ چنانچہ تفسیر مظہری میں ہے: ”فالمعنی لایمس القرآن الا المطہرون من الاحداث فیکون بمعنی النہی والمراد بالقرآن المصحف“(۱۰:۱۸۱)
یعنی قرآن کو نہیں چھوتے ․․․مراد یہ کہ قرآن کو نہ چھوئیں․․․ مگر وہی لوگ جو پاک ہوں اور قرآن سے مراد یہی لکھی ہوئی کتاب ہے۔حدیث میں ہے: ”لایمس القرآن الا طاہر“ (نصب الرایة‘۱:۲۸)”
حضور ا فرماتے ہیں کہ قرآن کو پاک لوگ ہی چھوئیں“۔ دوسری حدیث میں ہے:”عن عبد الرحمن بن یزید قال: کنا مع سلمان فخرج فقضی حاجتہ ثم جاء‘ فقلت: یا ابا عبد اللہ! لو توضأت لعلنا نسالک عن آیات قال انی لست امسہ انہ لایمسہ الا المطہرون فقرأ علینا ما شئنا انتہی“۔و صححہ الدار قطنی (نصب الرایة‘۱:۲۸۴)
یعنی حضرت عبد الرحمن بن یزید فرماتے ہیں کہ ہم حضرت سلمان کے ساتھ تھے کہ وہ قضائے حاجت کے لئے گئے اور پھر جب آئے تو میں نے کہا :اے ابو عبد اللہ! اگر آپ وضوکر لیتے تو ہم آپ سے چند آیات کے بارے میں پوچھتے تو آپ نے فرمایا کہ: میں․․․․اس حالت میں․․․ قرآن کو چھوؤں گا نہیں‘ اس لئے کہ قرآن کو صرف پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں پھر ہمارے سامنے ہماری مطلوبہ آیات کی تلاوت کی۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں فقہاء کرام کا اس بات پر اجماع واتفاق ہے کہ ناپاکی کی حالت میں قرآن کریم کو چھونا جائز نہیں ہے۔ چنانچہ تفسیر مظہری میں ہے:”وقد انعقد الاجماع علی انہ لایجوز مس المصحف للجنب والحائض ولا للنفساء ولا لمحدث“۔ (۱۰:۱۸۱)
حائضہ عورت قرآن کریم کی تلاوت نہیں کرسکتی ہے : چنانچہ حدیث میں ہے:”قال لاتقرأ الحائض ولا الجنب شیئا من القرآن“۔ (ترمذی:۱:۳۴)
یعنی حضرت ابن عمر حضور ا سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: حائضہ اور جنبی عورت قرآن میں سے کچھ نہ پڑھیں۔ تفسیر مظہری میں ہے:”ولما ورد لایمسہ الا المطہرون‘ فالفاظ القرآن اولی واحری ان لایجری الا علی لسان المطہرین والحائض والنفساء کالخبث“۔ (۱۰:۱۸۲)
لہذا جمہور امت اور ائمہ اسلاف اس بات پر متحد ومتفق ہیں کہ حائضہ عورت قرآن کریم کی تلاوت نہیں کرسکتی۔ چنانچہ معارف السنن میں ہے:”ذہب الجمہور وابوحنیفہ والشافعی واحمد اکثر العلماء والائمة الی منع الحائض والجنب عن قراء ة القرآن قلیلہا وکثیرہا“ ۔(۱:۴۴۵)
لہذا قرآن کریم کا حیض کی حالت میں بغیر کپڑے کے چھونا اور اس کا پڑھنا پڑھانا از روئے قرآن وحدیث ناجائز ہے‘ البتہ حائضہ معلمہ ایک ایک کلمہ الگ الگ کرکے یا ہجے کرکے قرآن پڑھا سکتی ہے۔ چنانچہ فتاویٰ ہندیہ میں ہے:”اذا حاضت المعلمة فینبغی لہا ان تعلم الصبیان کلمة کلمة‘ وتقطع بین کلمتین ولایکرہ لہا التہجی بالقرآن کذا فی المحیط“ ۔ (۱:۳۸)
فتاویٰ شامی میں ہے:”لانہ جوز للحائض المعلمة تعلیمہ کلمة کلمة“۔ (۱:۱۸۲)
۳- عورت کی امامت خواہ فرض نماز میں ہو یا نفل نماز میں مکروہ تحریمی ہے اور یہ کراہت عورتوں کی نفل نماز کی جماعت میں اور زیادہ شدید ہے‘ کیونکہ نفل کی جماعت اعلان کے ساتھ مردوں کے لئے جائز نہیں تو عورتوں کے لئے کیسے جائز ہوسکتی ہے؟ چنانچہ حدیث شریف میں ہے:”لاخیر فی جماعة النساء“ (اعلاء السنن‘ ۴:۲۴۱)
یعنی عورتوں کی جماعت میں کوئی خیر نہیں۔ حضرت علی سے مروی ہے ‘ وہ فرماتے ہیں: ”لاتؤم المرأة“۔ (اعلاء السنن ‘۴:۲۴۴)
یعنی عورت امامت نہ کرے۔ درمختار میں ہے: (و) یکرہ تحریما (جماعة النساء) ولو فی التراویح فی غیر صلاة الجنازة“ ۔ (۱:۵۶۵)
۴- عورت کے لئے شرعی مسافت سفر ہو تو بغیر محرم کے سفر کرنا شرعاً ناجائز ہے۔ جیساکہ متعدد احادیث سے یہ بات ثابت ہے: ۱- عن ابن عمر عن النبی ﷺ قال:” لاتسافر المرأة ثلاثاً الا معہا ذو محرم“۔ (صحیح البخاری‘ ۱:۱۴۷)
ترجمہ:۔”حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ حضور ا نے فرمایا : عورت تین دن کے برابر (مسافت) کا بغیر محرم کے سفر نہ کرے“۔ ۲- عن ابی سعید الخدری قال: قال رسول اللہ ا ”لایحل لأمرأة تومن باللہ والیوم الآخر ان تسافر سفرا یکون ثلاثة ایام فصاعدا الا ومعہا ابوہا او ابنہا او زوجہا او اخوہا او ذو محرم منہا“۔ (صحیح مسلم‘ ۱:۴۳۴)
ترجمہ:۔”حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں کہ حضور ا کا ارشاد ہے کہ: اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھنے والی عورت کے لئے حلال نہیں کہ وہ تین دن یا اس سے زائد کا سفر کرے‘ الا یہ کہ اس کے ساتھ اس کا والد یا بیٹا یا شوہر یا بھائی یا کوئی دوسرا محرم ہو“۔ ۳- عن عبد اللہ بن عمر عن النبی ا قال:” لایحل لأمرأة تومن باللہ والیوم الآخر تسافر مسیرة ثلاث الا ومعہا ذو محرم“۔ (صحیح مسلم ۱:۴۳۳)
ترجمہ:۔”حضرت عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے کہ حضور ا نے ارشاد فرمایا: اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھنے والی عورت کے لئے حلال نہیں کہ وہ تین دن کی مسافت کا سفر بغیر محرم کے کرے“۔مذکورہ احادیث مبارکہ اور ان جیسی دوسری احادیث سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ عورت کے لئے بغیر محرم کے سفر کرنا جائز نہیں اور ان ہی احادیث کی بناء پر جمہور علماء امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عورت کے لئے بغیر محرم کے سفر کرنا جائز نہیں۔ چنانچہ امام نووی فرماتے ہیں:
”وقال المجہور: لایجوز الا مع زوج او محرم وہذا ہو الصحیح للاحادیث الصحیحة“ ۔ (شرح مسلم‘۱:۴۳۳)
۵- مذکورہ حدیث میرے علم میں نہیں‘ باقی عورت کو دونوں باتوں کا اختیار ہے کہ اس کو دھوکر استعمال کرے یا پھینک دے‘ اس طرح کہ کسی کی نظر اس پر نہ پڑے۔ ۶-واضح رہے کہ عورتوں کا طریقہ نماز مردوں کے طریقہ ٴ نماز سے مختلف ہے اور یہ فرق احادیث وآثار ِ صحابہ سے ثابت ہے جوکہ درج ذیل ہے‘ نماز میں عورت کو حکم ہے کہ وہ ہاتھ چھاتیوں تک اٹھائے: چنانچہ حدیث شریف میں ہے:”عن وائل بن حجر قال :قال لی رسول اللہ ا : یا وائل ابن حجر! اذا صلیت فاجعل یدیک حذاء اذنیک‘ والمرأة تجعل یدیہا حذاء ثدییہا“۔ (مجمع الزوائد‘ ۲:۱۰۳)
ترجمہ:۔”حضرت وائل بن حجر فرماتے ہیں کہ مجھے حضور ا نے فرمایا : اے وائل بن حجر! جب نماز شروع کرو تو اپنے ہاتھ کانوں تک اٹھاؤ اور عورت اپنے ہاتھ چھاتیوں تک اٹھائے“۔عورت نمازمیں سمٹ کر سرین کے بل بیٹھے ‘ چنانچہ حدیث شریف میں ہے:
”عن ابن عمر انہ سئل کیف کان النساء یصلین علی عہد رسول اللہ ﷺ؟ قال: کن یتربعن ثم امرن ان یحتفزن“۔ (جامع المسانید‘۱:۴۰۰)
ترجمہ:۔”حضرت ابن عمر سے پوچھا گیا کہ خواتین حضور ا کے عہد مبارک میں کس طرح نماز پڑھا کرتی تھیں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ: پہلے چار زانو ہوکر بیٹھتی تھیں پھر انہیں حکم دیا گیا کہ خوب سمٹ کر نماز ادا کریں“۔ عورت زمین کے ساتھ چمٹ کر اور پیٹ کو رانوں کے ساتھ ملاکر سجدہ کرے‘ حدیث شریف میں ہے:”عن عبد اللہ بن عمر قال قال رسول اللہ ا : اذا جلست المرأة فی الصلاة وضعت فخذہا علی فخذہا الاخری‘ واذا سجدت الصقت بطنہا علی فخذیہا کاستر ما یکون لہا‘ وان اللہ ینظر الیہا‘ یقول: یا ملٰئکتی اشہدکم انی غفرت لہا“۔ (بیہقی‘ ۲:۲۲۳)
ترجمہ:۔”حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ آنحضرت ا کا ارشاد ہے : نماز کے دوران جب عورت بیٹھے تو اپنی ایک ران کو دوسری ران پر رکھے اور جب سجدہ میں جائے تو اپنے پیٹ کو اپنی دونوں رانوں سے ملالے‘ اس طرح کہ زیادہ سے زیادہ ستر ہو سکے اور اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی طرف دیکھتے ہیں اور فرشتوں سے فرماتے ہیں کہ: اے فرشتو! تم گواہ رہو‘ میں نے اس عورت کی بخشش کردی“۔ دوسری حدیث شریف میں ہے:عن یزید بن ابی حبیب ان رسول اللہ ا ‘ مر علی امرأتین تصلیان‘ فقال: اذا سجدتما فضما بعض اللحم الی الارض‘ فان المرأة لیست فی ذلک کالرجل“ ۔ (مراسیل ابی داود ص:۸)
ترجمہ:․․․”آنحضرت ا دوعورتوں کے پاس سے گزرے جو نما پڑھ رہی تھیں‘ آپ ا نے فرمایا: جب تم سجدہ کرو تو تم اپنے جسم کے بعض حصوں کو زمین سے چمٹادو‘ اس لئے کہ اس میں عورت مرد کے مانند نہیں ہے“۔حضرت علی فرماتے ہیں کہ:
”اذا سجدت المرأة فلتحتفز ولتضم فخذیہا“ (بیہقی‘ ۲:۲۲۳)
یعنی جب عورت سجدہ کرے تو سرین کے بل بیٹھے اور اپنی رانوں کو ملالے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ:” انہ سئل عن صلاة المرأة فقال تجتمع وتحتفز“ (مصنف ابن ابی شیبہ‘ ۱:۲۴۱)
یعنی ان سے عورت کی نماز کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا کہ ․․․سب اعضاء کو․․․ ملالے اور سرین کے بل بیٹھے۔ اسی بناء پر چاروں ائمہ کرام ‘ امام ابوحنیفہ‘ امام مالک‘ امام شافعی اور امام احمد اس بات پر متفق ہیں کہ عورت کا طریقہ نماز‘ مرد کے طریقہ نماز سے مختلف ہے اور فقہاء کرام نے اپنی کتابوں میں یہ فرق ذکر کیا ہے۔چنانچہ ہدایہ میں ہے:”والمرأة تنخفض فی سجودہا تلزق بطنہا بفخذیہا‘ لان ذلک استرلہا (وفی موضع اٰخر قال) وان کانت امرأة جلست علی الیتہا الیسری واخرجت رجلیہا من الجانب الایمن لانہ استرلہا“۔ (۱:۱۱۰‘۱۱۱)
شرح صغیر میں ہے:”نَدبَ مجافاة‘ ای: مباعدة‘ رجل فیہ‘ ای: سجود (بطنہ فخذیہ) فلایجعل بطنہ علیہما ومجافاة (مرفقیہ رکبتہ) ای: عن رکبتیہ ومجافاة ضبعیہ‘ ای: ما فوق المرفق الی الابط‘ جنبیہ ای: عنہما مجافاة وسطا فی الجمیع‘ واما المرأة فتکون منضمة فی جمیع احوالہا“۔ (۱:۳۲۹‘ط:دارالمعارف مصر ۱۳۹۲ھ)
شرح مہذب میں ہے:”قال الشافعی والأصحاب: یسن ان یجافی مرفقیہ عن جنبیہ‘ ویرفع بطنہ عن فخذیہ‘ وتضم المرأة بعضہا الی بعض ․․․(قال قبل اسطر)․․․ روی البراء بن عازب ا ن النبی ا کان اذا سجد جخ وروی جخی․․․․ ‘والجخ الخاوی وان کانت امرأة ضمت بعضہا الی بعض لان ذلک استرلہا“۔ (۳:۴۲۹)
المغنی میں ہے:”وان صلت امرأة بالنساء قامت معہن فی الصف وسطا‘ قال ابن قدامة فی شرحہ اذا ثبت ہذا فانہا اذا صلت بہن قامت فی وسطہن‘ لانعلم فیہ خلافا من رأی لہا ان تؤمہن ولان المرأة یستحب لہا التستر ولذلک یستحب لہا التجافی“۔ (۲:۳۶)
مذکورہ بالا احادیث مبارکہ وآثار صحابہ اور ائمہ اربعہ کے اقوال سے عورت کا طریقہ ٴ نماز ثابت ہے‘ وہ مرد کے طریقہ ٴ نماز سے جدا ہے‘ اس لئے مرداور عورت کی نماز کی ادائیگی کو یکساں کہنا غلط ہے۔ دینی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کا مقصد دینی تعلیمات پر عمل کرنا ہے‘ جہاں دینی تعلیم کے مقصد سے انحراف ہوتا ہو‘ وہاں تعلیم حاصل کرنا صحیح نہیں۔الجواب صحیح الجواب صحیح کتبہ
محمد عبد المجید دین پوریمحمد شفیق عارف
محمد شبیر
متخصص فقہ اسلامی جامعہ علوم اسلامیہ
چست کپڑے اور واٹرپروف میک اپ کا حکم
مولوی سید سہیل علی
چست کپڑے اور واٹر پروف میک اپ کا حکم!
کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ میں :
۱:․․․․عورتوں کے لئے چست کپڑے پہننا اس طور پر کہ ان کے اعضاء واضح طور پر جھلکنے لگیں‘ یہ کیسا ہے؟ اسی طرح جو درزی یہ کپڑے بناتے ہیں ان کی کمائی حلال ہے یا نہیں؟
۲:․․․․ عورتوں کا واٹر پروف میک اپ کروانا‘ جن میں حرام اشیاء کا استعمال ہوتا ہے‘ آیا یہ جائز ہے نہیں؟
مستفتی:عبد الرشید نارتھ کراچی
الجواب بعون الوہاب
واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ نے لباس کو انسانی جسم چھپانے کے ساتھ ساتھ زینت کا ذریعہ بھی بنایاہے‘ لہذا اگرایسا لباس ہو جس سے یہ مقصد حاصل نہیں ہوتا تو پھر شرعاً ایسا لباس پہننا نہ عورتوں کے لئے جائز ہے اور نہ ہی مردوں کے لئے جائز ہے۔ لہذا عورتوں کے لئے ایسا چست یا باریک لباس جس کو پہننے سے ان کا جسم نظر آئے یا اعضاء کی ساخت اور بناوٹ واضح ہو رہی ہو‘ ایسا لباس‘ شریعت کے مزاج اور لباس کے مقصد کے خلاف ہونے کی بناء پر ناجائز اور حرام ہے۔ایسا لباس پہننے والی عورتوں کے بارے میں سخت وعیدیں آئی ہیں۔ حدیث شریف میں ہے:الجواب بعون الوہاب
”رب کاسیات عاریات مائلات ممیلات لایدخلن الجنة ولایجدن ریحہا“۔ (مشکوٰة:)
ترجمہ:․․․․”بہت سی لباس پہننے والی عورتیں ننگی کے حکم میں ہیں جو خود مائل ہوتی ہیں ‘ دوسروں کو مائل کرتی ہیں‘ ایسی عورتیں نہ جنت میں داخل ہوں گی اور نہ ہی اس کی بو پائیں گی“۔فتاویٰ شامی میں ہے:
”قولہ: ونساء کاسیات عاریات‘ قال النووی (قیل معناہ: کاسیات من نعمة الله‘ عاریات من شکرہا وقیل معناہ: تستر بعض بدنہا وتکشف بعضہ اظہارا بجمالہا ونحوہ: وقیل معناہ: تلبس ثوبا رقیقا یصف لون بدنہا)“۔ (مسلم دار الفکر کتاب اللباس والزینة ص:۶۵۹) قولہ :”ممیلات مائلات“ قال النووی: اما مائلات فقیل معناہ: من طاعة الله وما یلزمہن حفظہ‘ ممیلات: ای یعلمن غیرہن فعلہن المذموم“ اھ (فتح الملہم ۴/۲۰۰)
پس جو درزی عورتوں یا مردوں کے لئے ایسے کپڑے سیتے ہوں جوچست اور اتنے تنگ ہوں کہ پہننے والے کے جسم کی بناوٹ ظاہر ہوتی ہو تو ایسے کپڑے سینا چونکہ جائز نہیں‘ اس لئے ایسے درزی حضرات وخواتین کی کمائی مکروہ ہوگی۔فتاویٰ شامی میں ہے:”فاذا ثبت کراہة لبسہا للتختم‘ ثبت کراہة بیعہا وصیغہا لما فیہ من الاعانة علی مالا یجوز‘ وکل ما ادی الی مالایجوز‘ لایجوز“ (۶/۳۶۰ فصل فی اللبس کتاب الخطر والاباحة ط:سعید)
۲:․․․عورتوں کا واٹرپروف میک اپ کرانا اگر اس میں کوئی حرام اور نجس اشیاء شامل نہ ہوں تو جائز ہے لیکن ایسے میک اپ کے بعد وضو اور غسل کرنے کے لئے اس کو دور کرنااور ہٹانا ضروری ہے‘ ورنہ وضو اور غسل نہ ہوگا۔ اسی طرح ایسا میک اپ جس میں خنزیر یا کسی بھی ناپاک چیز کے اجزاء شامل ہوں اس کا استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
”وقال ابو حنیفة ولاینتفع من الخنزیر بجلدہ ولاغیرہ ․․․․“ (۵/۳۵۴)
الجواب صحیح الجواب صحیح کتبہ
محمد عبد المجید دین پوری
محمد شفیق عارف
سید سہیل علی
متخصص جامعہ علوم اسلامیہ
علامہ بنوری ٹاؤن کراچی
موبائل فون پر ہولڈ کے وقت حمد ونعت یا میوزک لگانے کا حکم
فخر السادات چترالی
موبائل فون پر ہولڈ کے وقت حمد ونعت یا میوزک لگانے کا حکم!
کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ میں کہ:
مختلف اداروں میں جب کسی کو فون ہولڈ کرنے کا کہتے ہیں تو میوزک لگادیتے ہیں تاکہ فون پر موجود شخص یہ سمجھ کرکہ فون بند ہوگیا ہے، رابطہ منقطع نہ کرے۔ اسی طرح بعض حضرات اورادارے والے فون پر ہولڈ آن میوزک کی جگہ اسماء الحسنیٰ ‘ تلاوت‘ اذان یا حمد ونعت لگادیتے ہیں‘ ان کا مقصد بھی یہ ہوتا ہے کہ فون کرنے والا یہ خیال نہ کرے کہ فون بند ہوگیا ہے اور دوسری وجہ اس کو پس منظر میں ہونے والے شک سے بچانا ہوتا ہے۔۱- اس طرح فون پر ہولڈ کرواتے ہوئے قرآنی آیت‘ اذان‘ اسماء الحسنیٰ یا کسی حمد ونعت کا لگانا جائز ہے؟
۲- بعض اداروں میں ہولڈ آن میوزک ہوتا ہے‘ آدمی کونا چاہتے ہوئے بھی سننا پڑتا ہے اور کچھ اداروں میں لازم ہوتاہے کہ اگر انہیں بند کرنے کا بھی کہا جاوے تو اسے وہ بند کرنے کا اختیار نہیں رکھتے‘ اس طرح میوزک سننے یا سنانے کا گناہ کس پر ہوگا؟ سننے والے پر‘ سنانے والے پریا اس ادارے کی پالیسیاں بنانے والوں پر؟
از راہ کرم قرآن وسنت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔
مستفتی۔ارشاد احمد رضوی‘کراچی
الجواب حامداً ومصلیا
فون پر ہولڈ کرواتے ہوئے تلاوت‘ اذان اور حمد ونعت لگادینا جائز نہیں‘ اس لئے کہ قرآن کریم کلام اللہ اور اذان شعائر اللہ میں سے ہے۔ کلام اللہ اور شعائر اللہ کو کلامی مقاصد یا کلام الناس کی جگہ استعمال کرنا شرعاً ناجائز ہے‘بلکہ بعض فقہاء کرام نے کفر کا اندیشہ بھی ظاہر فرمایاہے۔ نیز حمد ونعت بھی شرعاً واجب الاحترام ہیں‘ ان میں بھی اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم ا کے اسماء اور تعریف شامل ہوتی ہے جن کا تعلق ایمانیات سے ہے اور ایمانیات کو لغویات وفضولیات اور لایعنی کام کے طور پر استعمال کرنا بھی شدید گناہ ہے‘ چنانچہ شرح فقہ اکبر میں ہے:”وفی الفتاوی الظہیریة: من قرأ آیة من القرآن علی وجہ الہزل کفر۔ قلت: لانہ تعالیٰ قال: ”انہ لقول فصل وما ہو بالہزل“ وفی تتمة الفتاوی: من استعمل کلام الله تعالیٰ بدل کلامہ کمن قال فی اذدحام الناس : ”فجمعناہم جمعا“ کفر‘ قلت: ہذا انما یتصور اذا کان قائل ہذا الکلام ہو جامع الناس بالازدحام والا فلا مانع ․․․ وفی المحیط: من قال لمن یقرأ القرآن ولایتذکر کلمة ”والتفت الساق بالساق“ ․․․ الی قولہ کفر‘ وفیہ وجہ الکفر فی القولین الاولین ظاہر‘ لانہ وضع القرآن فی موضع کلامہ‘ واما القول الاخیر فلا یظہر وجہ کفرہ‘ لانہ ماجاء جمعنا ہم عندنا فی القرآن وبمجرد مشارکة کلمة تکون فی القرآن من جملة اجزاء الکلام لایخرج من الاسلام باتفاق علماء الانام“۔ (فصل فی القرا ء ة والصلوة ص:۲۵۰تا ۲۵۲ ط‘ دار الباز مکة المکرمة)
اسی طرح فتاویٰ شامی میں ہے:”وقد کرہوا والله اعلم ونحوہ لاعلام ختم الدرس حین یقرر․․․ قولہ: لاعلام ختم الدرس اما اذا لم یکن اعلاما بانتہائہ لایکرہ‘ لانہ ذکر وتفویض بخلاف الاول فانہ استعملہ آلة للاعلام ونحوہ اذا قال الحارس: لا الہ الا الله ونحوہ لیعلم باستیقاظہ فلم یکن المقصود الذکر اما اذا اجتمع القصدان یعتبر الغالب کما اعتبرنی نظائرہ“۔ (کتاب الحظر والاباحة ۶/۴۳۱ ط‘ سعید)
جن اداروں میں ہولڈ آن میوزک ہوتا ہے‘ اس میوزک کے گناہ کا وبال بنیادی طور پر ادارے کے پالیسی ساز افراد پر ہوگا پھر اسے چلا کر سنوانے والے حضرات پر بھی ہوگا‘ نیز دوسری جانب فون پر سننے والا اگر اپنے اختیار اور شوق سے تلذذ کے طور پر سن رہا ہو تو وہ بھی اس گناہ میں شریک ہوگا۔ مشکوٰة کی شرح مرقاة المصابیح میں ہے:”فقال رسول اللہ ا : من سن فی الاسلام سنة حسنة ای اتی بطریقة مرضیة یقتدی بہ فیہا فلہ اجرہا ای اجر تلک السنة ای ثواب العمل بہا وفی نسخة اجرہ ای اجر من سن یعنی اجر عملہ ․․․ ومن سن فی الاسلام سنة سیئة ای بدعة مذمومة عمل بہا کان علیہ وزرہا ای اثمہا ووزرو من عمل بہا من بعدہ ای من جہة تبعیتہ (من غیر ان ینقص) تقدم (من اوزارہم شئ) جمع فی الموضعین باعتبار معنی من کما افرد فی ینقص باعتبار لفظہ “۔ (کتاب العلم ۱/۲۷۷-۲۷۸ ط‘ امدادیہ ملتان)
فتاوی شامی میں ہے:”وفی البزازیة: استماع صوت الملاہی کضرب قضیب ونحوہ حرام لقولہ علیہ الصلوة والسلام استماع الملاہی معصیة والجلوس علیہا فسق والتلذذ بہا کفر“۔ (الدر المختار مع الرد المحتار باب خظر والاباحة ۶/۳۴۹ ط‘سعید)
الجواب صحیح الجواب صحیح
محمد عبد المجید دین پوری محمد عبد القادرکتبہ
فخر السادات چترالیمتخصص جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن
ATMکی سہولت پر بینک کا چارجز لینا‘ دینا
مولوی محمد عرفان
ATMکی سہولت پر بینک کا چارجز لینا‘ دینا!
کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ میں کہ:
مسئلہ یہ ہے ATMکارڈ استعمال کیا جارہا ہے ۔ATMکارڈ ہولڈر کی رقم بینک میں جمع ہوتی ہے اور یہ کارڈ ہولڈر بوقت ضرورت ATMکارڈ مشین سے روپے نکال سکتا ہے‘ اگر یہ کارڈ ہولڈر اسی بینک کی مشین استعمال کرے جس کا اس کے پاس کارڈ ہے‘ مثلاً: اکاؤنٹ ABL بینک میں ہے اور کارڈ بھی ABLکا ہے اور استعمال بھی ABL کی مشین سے کرتا ہے تواس پر بینک کوئی چارجز نہیں لیتا اور اگر دیگر بینکوں کی مشین سے روپے نکالے تو اس پر کچھ روپے کٹتے ہیں:۱- دریافت یہ کرنا ہے کہ ATM کی سہولت فراہم کرنے والے بینک کو چارجز دینا اور بینک کا لینا جائز ہے یا نہیں؟
۲- بسا اوقات ایسابھی ہوتا ہے کہ دیگر کچھ بینکوں سے معاہدہ ہوجاتا ہے‘ ایسے بینک ATMکارڈ مشین کے استعمال پر چارجز نہیں لیتے اور کسی قسم کی کٹوتی نہیں ہوتی تو اس صورت کا کیا حکم ہے؟
سائل:عبد الرحمن جمشید روڈ‘ کراچی
الجواب باسمہ تعالیٰ
۱- ATMکارڈسسٹم سرمائے کی حفاظت اور محفوظ وبا سہولت وصولیابی کا ایک طریقہ ہے ‘ ATM کارڈ ہولڈر کو اس کا بینک یہ سہولت دیتا ہے کہ بینک کا اکاؤنٹ ہولڈر اپنے بینک یا کسی ایسے بینک سے جس کے ساتھ اکاؤنٹڈ کے بینک کا معاہدہ ہو‘ وہ دفتری کارروائی کے بغیر بینک کی طرف سے فراہم کردہ ATM کی سہولت سے فائدہ اٹھائے اور مطلوبہ رقم حاصل کرے‘ اس پر اپنا بینک جہاں اکاؤنٹ ہو وہ کسی قسم کی کٹوتی نہیں کرتا تو اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں‘ بلکہ جائز ہے۔ نیز اگر ایک بینک کے ATM کارڈ کے ذریعے کسی دوسرے بینک کی مشین سے رقم نکالی جائے اور وہ بینک اس سہولت کی فراہمی پر کٹوتی کرے تو سروس چارجز (حق الخدمت) کے طور پر ایسی کٹوتی جائز ہے‘ کیونکہ شرعاً یہ بعض خدمات کا معاوضہ اور رقم کی منتقلی کی اجرت ہے۔کشف القناع میں ہے:
”عقد علی منفعة مباحة ‘ معلومة تؤخذ شیئا فشیئا مدة معلومة من عین معلومة او موصوفة فی الذمة او عمل معلوم بعوض معلوم“۔ ) کشاف القناع: ۳/۵۳۷ باب الاجارة)
فتاویٰ شامی میں ہے:الاجارة (ہی) شرعاً (تملیک بعوض ․․․ وحکمہا وقوع الملک فی البدلین ساعة فساعة“۔ (کتاب الاجارة ۶/۵ ط: سعید)
النتف فی الفتاوی میں ہے:”واجارة الامتعة جائزة اذا کانت فی مدة معلومة باجر معلوم ولہ ان یستعملہا فیما یستعمل مثلہ فی ذلک“۔ (کتاب الاجارة ۲۰۴۷ ط: سعید)
۲- یہ بھی جائز ہے۔الجواب صحیح الجواب صحیح
محمد عبد المجید دین پوری محمد عبد القادرکتبہ
محمد عرفانمتخصص فی الفقہ الاسلامی
جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی
اسلام میں سنت اور حدیث کا مقام
محدث العصرحضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری
اسلام میں سنت اور حدیث کا مقام
حق تعالیٰ نے بنی نوعِ انسان کی ہدایت ورہنمائی کے لئے وحی آسمانی کا سلسلہ جاری فرمایا‘ اس کے لئے جن برگزیدہ نفوسِ قدسیہ کا انتخاب فرمایا‘ اسلامی زبان میں انہیں انبیاء ورسل کہتے ہیں‘ ان مقدس ہستیوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عصمت کی ضمانت دی جاتی ہے یعنی ان کا ہرقول وفعل شیطانی تسلط اور نفسانی خواہش سے پاک ہوتا ہے‘ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
”وما ینطق عن الہوی ان ہو الا وحی یوحی“۔ (النجم:۳‘۴)
ترجمہ:۔”اور نہیں بولتا اپنے نفس کی خواہش سے‘ وہ تو حکم ہے بھیجا ہوا“۔ ان کی صداقت وحقانیت کو قطعی دلائل وشواہد سے ثابت کیا جاتا ہے تاکہ مخلوق پر حجت قائم ہو اور وہ پوری طرح یقین واطمینان کے ساتھ ان پر ایمان لائیں اور ان کی تصدیق کرسکیں‘ انہی دلائل کا نام ”معجزات“ و”بینات“ ہے‘ ان کی نبوت ورسالت ‘ ان کی صداقت وحقانیت اور ان کی عصمت وضمانت کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ان کی اطاعت تمام انسانوں کے لئے فرض ہوجاتی ہے‘جیساکہ ارشاد ہے:”وما ارسلنا من رسول الا لیطاع بإذن اللہ“۔ (النساء:۶۴)
ترجمہ:۔”اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اسی واسطے کہ اس کا حکم مانیں اللہ کے فرمانے سے “۔ الغرض آسمانی ہدایت کا اصل منبع وہ ربط وتعلق ہے جو انبیاء کرام علیہم السلام کا بار گاہِ قدس سے قائم ہوتا ہے اور جسے نبوت ورسالت سے تعبیر کیا جاتا ہے‘ انہیں حق تعالیٰ کی طرف سے برابر پیغامات دیئے جاتے ہیں‘ پیغام رسانی کبھی فرشتہ کے ذریعہ ہوتی ہے اور کبھی براہِ راست۔ جس فرشتہ کو اس کے لئے منتخب فرمایا گیا ہے‘ ان کا نام جبریل ہے‘ قرآن کریم میں ارشاد ہے:”وما کان لبشر ان یکلمہ اللہ الا وحیا او من وراء حجاب او یرسل رسولا فیوحی باذنہ ما یشاء“ ۔ (الشوریٰ:۳۸)
ترجمہ:۔”اور کسی آدمی کی طاقت نہیں کہ اس سے باتیں کرے اللہ‘ مگر اشارہ سے یا پردہ کے پیچھے سے یا بھیجے کوئی پیغام لانے والا پھر پہنچادے اس کے حکم جو وہ چاہے“۔ منبع وحی
یہ پیغام عام طور سے کسی صحیفہ یا کتاب کی صورت میں نہیں‘ بلکہ فرشتہ کی زبانی یا القاء فی القلب کی شکل میں ہوتا ہے اور کبھی اس پیغام کو الفاظ کی صورت میں منضبط کرکے بھیجا جاتا ہے جسے ”صحیفہ“ یا ”کتاب“ کہا جاتا ہے‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صحیفے اور تورات‘ زبور‘ انجیل ‘ قرآن کریم چار مشہور کتابیں اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیں‘ ظاہر ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی تعداد ایک لاکھ سے متجاوز ہے اور صحیفوں اور کتابوں کی تعداد نہایت قلیل‘ اس سے صاف طور پر واضح ہوجاتاہے کہ وحی صرف کتاب یا صحیفے میں منحصر نہیں‘ بلکہ نبی ورسول کی ذات گرامی منبع وحی ہے‘ امت کے لئے جس طرح کتاب واجب القبول اور واجب الاتباع ہے ٹھیک اسی طرح نبی ورسول کا ہر حکم وارشاد اور ہرقول وفعل امت کے لئے حجت اور واجب الاتباع ہے‘ البتہ اتنا فرق ہے کہ کتاب بعد کی امت تک قطعی ذرائع سے پہنچتی ہے‘ اس لئے اس کے احکامات کا ثبوت قطعی ہوتاہے اور بقیہ پیغامات کبھی تواتر یا عملی توارث جیسے قطعی ذرائع سے پہنچتے ہیں اور کبھی وہ ذرائع قطعی نہیں ہوتے‘ اس لئے اس دوسری قسم کا درجہ قرآن کریم کی سی قطعیت کا نہیں ہوگا مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ قرآن کریم تو امت کے لئے قابل قبول ہو اور رسول اللہ ا کے دوسرے پیغامات کی معاذ اللہ کوئی قیمت نہ ہو‘ قرآن کریم بار بار اعلان کرتا ہے کہ قرآن کریم کا سمجھانا اور اس پر عمل کرانا یہ آنحضرت ا کا کام ہے‘ قرآن کریم کے اجمال کی تفصیل‘ اس کے الہام کی توضیح‘ اس کے اشارات کی تشریح‘ اس کے مقصد ومنشاء کی تعیین‘ اس کی مشکلات کا حل اور اس کے احکام کی عملی تشکیل یہ سب کام رسول اللہ ا کے ذمہ ہیں جو وحی الٰہی کے ذیل میں آتے ہیں اور امت کے لئے واجب القبول ہیں۔تعلیماتِ انبیاء
بہرحال یہ حقیقت واضح اور مسلم ہے کہ آنحضرت ا پر پیغاماتِ الٰہیہ جس طرح قرآن کی صورت میں نازل ہوئے‘ اسی طرح بہت سے پیغاماتِ الٰہیہ قرآن کے علاوہ بھی آپ ا پر نازل ہوئے جن کی تعلیم امت کو دی گئی‘ قرآن کریم کی اصطلاح میں انبیاء کرام علیہم السلام کی ان تعلیمات کا نام ”الحکمة“ ہے اور قرآن کریم نے متعدد مقامات میں اسے ”انزل“ سے تعبیر فرمایاہے۔دین کا منبع اور مدار
ان اشارات سے یہ بات سمجھنی آسان ہوگئی کہ دین کا اصل مدار آنحضرت ا کی ذات گرامی ہے اور دین کا اصل منبع نبوت کی تعلیمات وہدایات ہیں‘ خواہ قرآن کریم میں ان کا ذکر ہو یا نہ ہو‘ اسلام کے تشریعی نظام پر غور کرنے کا موقع جن لوگوں کو ملا ہے وہ جانتے ہیں کہ بہت سے بنیادی اور اہم احکامات حضرت رسول اللہ ا نے وحی خفی کے اشارے سے امت کو دئے اور مدت کے بعد قرآن کریم میں ان احکام کی آیات نازل ہوئی جن میں آنحضرت ا کے بیان فرمودہ احکام کی تصدیق وتائید کی گئی ‘ اس کی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیے:۱- توحید ورسالت کے اقرار کے بعد اسلام میں سب سے پہلی عبادت صلاة یعنی نماز ہے‘ اس عبادت کا سلسلہ ابتداء اسلام ہی سے قائم ہوگیا تھا‘ معراج سے پہلے صبح وشام کی دو نمازیں فرض تھیں اور اسراء کے بعد پانچ نمازوں کی فرضیت نازل ہوئی‘ مگر قرآن کریم میں اس وقت تک نماز کے اوقات کی تفضیل نہ تھی‘ اس فریضہ کو امت نے آنحضرت ا ہی سے لیا اور اس پر عمل کیا۔
۲- نماز کا جو نقشہ آپ ا نے قولاً وعملاً پیش فرمایا کہ اللہ اکبر سے شروع ہو اور السلام علیکم پر ختم ہو‘ اس میں قیام ہو‘ قرأت ہو‘ رکوع وسجود ہو‘ جلسہ وقومہ ہو اور رکعتیں کبھی دو ہوں کبھی تین کبھی چار وغیرہ وغیرہ‘ ان تمام تفصیلات کی طرف قرآن کریم میں کہیں اشارے تو موجود ہیں‘ لیکن یہ مفصل نقشہ امت نے آپ ا ہی کے قول وعمل سے سیکھا اور اس پر عمل کیا‘ نہ قرآن کریم پر اس کا مدار نہ اس میں ذکر کا انتظار۔
۳- نماز کے لئے طہارت ووضو وغیرہ کے لئے آپ ا نے ہی ہدایت فرمائی اور امت نے اس پر عمل کیا‘ تقریباً اٹھارہ سال بعد سورہٴ مائدہ میں آیت وضو نازل ہوئی جب کہ امت اٹھارہ سال سے آپ ا کی ہدایت پر عمل پیرا تھی۔
۴- آنحضرت ا مدینہ طیبہ تشریف لائے تو امت کو نماز میں بیت المقدس کے استقبال کا حکم فرمایا‘ سولہ‘ سترہ مہینے اس پر عمل رہا‘ اس کے بعد قرآ ن کریم میں بیت اللہ شریف کے استقبال کا حکم ہوا‘ بیت المقدس کے استقبال کا حکم قرآن میں نازل نہیں ہوا تھا‘ لیکن آنحضرت ا کے بیان فرمودہ کم کی قرآن کریم نے تصدیق کی ۔
”سیقول السفہاء من الناس“ الآیة
۵- جب بنی النضیر سے جہاد کا حکم ہوا تو جنگی مصلحت کے پیش نظر آنحضرت ا نے ان کے کھجور کے بعض درختوں کو کاٹنے کا حکم فرمایا‘ یہود نے اس پر اعتراض کیا تو آنحضرت ا کے حکم کی تصدیق وتصویب کے لئے قرآن نازل ہوا اور ان درختوں کے کاٹنے کو ”باذن اللہ“فرمایا‘جیساکہ ارشاد ہے:”ما قطعتم من لینة او ترکتموہا قائمة علی اصولہا فباذن اللہ“۔ (الحشر:۵)
ترجمہ:․․․”جو کاٹ ڈالا تم نے کھجور کا درخت یا رہنے دیا کھڑا اپنی جڑ پر سو اللہ کے حکم سے“۔ ان چند مثالوں سے یہ بات بخوبی واضح ہوگئی کہ امت کی راہنمائی کے لئے آنحضرت ا کی ذاتِ گرامی سر چشمہٴ ہدایت ہے‘ کسی بھی معاملہ میں نہ قرآن پر توقف ہے نہ اس کا انتظار‘ صحابہ کرامجو قرآن کریم کے سب سے پہلے اور براہ راست مخاطب تھے‘ ان کے نزدیک آنحضرت ا کی دونوں حیثیتیں مسلم تھیں کہ آپ نبی معصوم بھی ہیں اور ہر معاملہ میں مطاعِ مطلق بھی‘ اسی لئے وہ قرآن حکیم اور حدیث نبوی کے احکام کو یکساں طور پر واجب الاتباع مانتے تھے اور ان پر عمل کرتے تھے۔ احادیثِ نبویہ میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا کافی بڑا حصہ تو وہ ہے جو قرآنی احکام کی تشریح وتوضیح پر مشتمل ہے‘ قرآن کریم نے ”اقیموا الصلاة“ فرمایا‘ آپ ا نے اقامتِ صلاة کی قولاً وعملاً تعلیم دیتے ہوئے فرمایا: ”صلوا کما رأیتمونی اصلی“ تم بھی ایسی نماز پڑھو جیسی میں پڑھتا ہوں ”وآتوا الزکوٰة“ کا حکم نازل ہوا تو آپ ا نے اس کی تفصیل بیان فرمائی کہ کن کن اموال میں زکاة ہوگی‘ ہرایک کا نصاب کیا ہوگا‘ مقدار زکاة کیا ہوگی‘ اس کے اصول وشرائط کیا ہوں گے؟ اس اعتبار سے آپ کا وجود اور آپ ا کی حیاتِ طیبہ عملی قرآن ہے یعنی احکامِ قرآن کا عملی نمونہ اور مثال ہے‘ یہی وجہ ہے کہ حضرت عائشہ سے جب آپ ا کا خلق دریافت کیا گیا تو فرمایا: ”کان خلقہ القرآن“ آپ ا کا خلق قرآن تھا‘ شریعت محمدیہ کا وسیع نظام جو سب کے سامنے ہے اور جس میں عقائد وعبادات اخلاق ومعاشرت‘ سنن وآداب‘ جہاد وقتال‘ صلح وجنگ‘ سیاست ومعیشت سبھی کچھ آجاتا ہے‘ ان میں بہت سے احکام ایسے ہیں جو قرآن کریم میں نہیں ہیں‘ آپ ا ہی نے امت کو ان کی تعلیم فرمائی ہے‘ ظاہر ہے کہ دینِ اسلام کا تفصیلی نقشہ قرآن کریم کے ساتھ آنحضرت ا کے انفاسِ قدسیہ اور احادیث طیبہ کو ملانے ہی سے تیار ہوتا ہے اور اسی سے الحاد وتحریف اور رکیک تاویلات کے راستے بند ہوتے ہیں‘ اگر قرآن کریم کو نبی کریم ا کی عملی زندگی اور آپ ا کے ارشادات وہدایات سے الگ کرلیا جائے تو قرآن کریم ملحدین کی غلط تعبیرات کا تختہٴ مشق بن جائے گا اور تحریف وتاویل کا انسداد دشوار ہوگا۔مستشرقین اور اعداء اسلام کی قرآن کریم میں معنوی تحریف کی کوشش
متنِ قرآن کریم کی حفاظت کا تو اعلان ہوچکا ہے‘ اس کا امکان نہیں تھا کہ قرآن کے الفاظ میں رد وبدل کیا جاسکے‘اس لئے دشمنانِ اسلام جو ہمیشہ اسلام کو مٹانے کے درپے رہے‘ قرآن کریم سے تو مایوس ہوگئے‘ انہوں نے قرآن کی معنوی تحریف کے لئے یہ چور دروازہ تلاش کیا کہ حدیثِ نبوی کو جو معانی قرآنی کی محافظ ہے ناقابلِ اعتبار ثابت کریں‘ یورپ کے مستشرقین اور دشمنِ اسلام ملاحدہ نے اپنے تمام وسائل اور دماغی وقلمی تمام طاقتیں احادیث کو بے وقعت بنانے کے لئے صرف کرنا شروع کردیں اور مسلمانوں میں ”منکرین حدیث“ کے نام سے منافقین کا جو گروہ آج موجود ہے غلام احمد پرویز وغیرہ‘ انہوں نے انہی دشمنان اسلام کی راہنمائی میں اس مہم کو اور آگے بڑھایا ”ولقد صدق علیہم ابلیس ظنہ“ چنانچہ نئی نسل کے بہت سے افراد جو دینی تعلیم وترتیب سے بے بہرہ تھے‘ ان خیالات کا شکار ہوگئے۔تاریخ فتنہٴ انکارِ حدیث
انکارِ حدیث کے فتنہ کی تاریخ بہت قدیم ہے‘ سب سے پہلے خوارج نے اس کی بنیاد رکھی‘ صحابہ کرام کی تکفیر کرکے ان کی روایت کردہ احادیث کا انکار کیا اور صرف کتاب اللہ کو مانا‘ ان کے بالمقابل شیعہ نے کتاب اللہ کی تحریف اور احادیث کے انکار کا راستہ کھولا اور دین کا انحصار اپنے ائمہ کی روایت پر رکھا‘ معتزلہ نے تاویل کے راستہ سے فتنہٴ انکارِ حدیث کومزید قوت بہم پہنچائی مگر یہ دور اسلام کی شوکت وعزت کا دور تھا‘ ان کی مساعی ناکام رہیں اور مسلمانوں نے جس طرح قرآن کو سینے سے لگایا اور علوم قرآن کی خدمت کو سرمایہٴ سعادت سمجھا‘ اسی طرح احادیث نبویہ کو سر آنکھوں پر رکھا اور علوم حدیث کی خدمات اس محنت وعقیدت سے انجام دیں کہ تاریخ عالم اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے اور حضرت رسول اللہ ا کے انفاسِ قدسیہ کی وہ حفاظت کی کہ عقل حیران ہے۔ حدیثِ نبوی ا سے مسلمانوں کا شغف دیکھ کر اس وقت اعداء اسلام نے وضعِ احادیث کا چور دروازہ نکالا اورمن گھڑت روایات پھیلانا شروع کیں تاکہ حق وباطل خلط ملط ہوکر حقیقت ملتبس ہوجائے‘ مگر حق تعالیٰ نے اپنے دین کی حفاظت کے لئے ایسے رجالِ کار پیدا کئے جنہوں نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کرکے رکھ دیا‘ انہوں نے فنِ رجال اور جرح وتعدیل مرتب کیا اور روایات کی چھان بین کرکے تمام اعداء اسلام یہودیوں‘ سبائیوں اور ملحدوں کی اس سازش کو خاک میں ملادیا‘ امتِ محمدیہ نے اپنے رسول ا کی احادیث کی حفاظت کے کام کو اتنا آگے بڑھایا کہ اصولِ حدیث کے مختلف فنون کی تعداد ایک سو کے قریب پہنچ گئی‘ بلا شبہ دینِ اسلام ابدی تھا‘ قیامت تک کی نسلِ انسانی کے لئے سر چشمہٴ ہدایت تھا‘ ضروری تھا کہ دینِ اسلام کی یہ دونوں مشعلیں کتاب وسنت قیامت تک روشن اور ہرقسم کی آندھیوں اور جھکڑوں سے محفوظ رہیں‘ تاکہ ہر دور میں اللہ کی حجت قائم رہے اور قرآن کریم کی یہ آیت ہر وقت صادق رہے:”وکیف تکفرون وانتم تتلی علیکم آیات اللہ وفیکم رسولہ‘(آل عمران:۱۰۱)
ترجمہ۔․”اور تم کس طرح کافر ہوتے ہو اور تم پر تو پڑھی جاتیں ہیں آیتیں اللہ کی اور تم میں اس کا رسول ہے“۔ فرمان نبوی میں اس حقیقت کا اظہار اس طرح فرمایا گیا ہے:”ترکت فیکم امرین لن تضلوا ما تمسکتم بہما کتاب اللہ وسنة رسولہ“۔ (موطا مالک)
ترجمہ:۔میں نے تم میں دو چیزیں چھوڑی ہیں جب تک ان کو مضبوطی سے پکڑے رہو گے کبھی گمراہ نہ ہوگے ایک کتاب اللہ اور دوسری اس کے رسول کی سنت“۔ قرآن کریم اور حدیث نبوی
الغرض اس کا کوئی امکان نہیں کہ قرآن وحدیث کو ایک دوسرے سے جدا کیا جاسکے‘ نہ یہ ممکن ہے کہ قرآن پر ایمان ہو اور حدیث نبوی سے انکار‘ کیونکہ قرآن کریم بار بار اس حقیقت کا اظہار کرتا ہے کہ حضرت رسو اللہ ا کی اتباع میں تمہاری نجات ہے اور آپ ا کی نافرمانی تباہی وبربادی کا موجب ہے‘ آپ کی مخالفت پر قرآن کریم سخت سے سخت وعیدیں سناتا ہے‘ آپ کی زندگی کو امت کے لئے اسوہ ونمونہ قرار دیتا ہے‘ قرآن کی تعلیم وتشریح اور اس کے اجمال کی تفصیل کو قرآن آپ کا فرضِ منصبی بتاتا ہے‘ حاصل یہ کہ دنیا وآخرت کی نجات وسعادت اور فلاح وبہبودی آپ ا کی پیروی میں ہے اور حق تعالیٰ کی محبت واطاعت کا معیار بھی آنحضرت ا کی متابعت کے سوا کچھ نہیں:”قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ ویغفر لکم ذنوبکم“۔ (آل عمران:۳۱)
ترجمہ:۔”ان سے کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرمائے گا“۔فرقِ باطلہ اور حدیث
بہرحال تمام فرق باطلہ خوارج‘ شیعہ‘ معتزلہ‘ قدریہ‘ جہمیہ اور مرحبہٴ وغیرہ نے احادیث کے خلاف جوہرزہ سرائی کی تھی (اور امام ابوحنیفہ‘ امام شافعی/ امام احمد اور دیگر محدثین ومتکلمین نے جس کا دندان شکن جواب دے کر ان کے حوصلے پست کردئے تھے) ہردور میں ملاحدہ اسے جدید شکل وصورت میں پیش کرتے رہے ہیں چنانچہ مستشرقینِ یورپ نے بھی اسی محاذ سے اسلام کی بیخ کنی شروع کی اور اس کے لئے ایک منظم مہم چلائی جو زہر قدیم باطل پرستوں نے اگلا تھا اسی کو دوبارہ نئی بوتلوں میں بھر بھر کر جدید نسل کے حلق سے اتارنے کی کوشش کی‘ کبھی کہا کہ احادیث تو دو سو سال بعد قلم بند ہوئی ہیں ان کا کیا اعتبار؟ کبھی حاملین حدیث پر اعتراضات کئے‘ کبھی عقلی شبہات ووساوس پیش کئے اور ان راستوں سے نماز‘ اس کے اوقات‘ زکاة‘ روزہ‘ حج ‘ قربانی وغیرہ تمام عبادات میں شکوک وشبہات پیدا کئے‘ احکامِ شرعیہ کو اعتراضات کا نشانہ بنایا‘ ملائکہ ‘ جنات‘ شیاطین ‘ ارواح وغیرہ میں تاویل ِ باطل کا راستہ کھولا‘ اس طرح کوشش کی گئی کہ خدا نخواستہ اسلام کی بنیادوں کو ہلا دیا جائے مگر لسانِ نبوت سے یہ اعلان پہلے صادر ہوچکا تھا:”یحمل ہذا العلم من کل خلف عدولہ ینفون عنہ تحریف الغالین وانتحال المبطلین وتأویل الجاہلین“۔ (مشکوٰة:)
ترجمہ:۔”ہر آنے والی نسل میں کچھ عادل وثقہ حضرات اس علم دین کے حامل ہوں گے جو غلو کرنے والوں کی تحریف‘ باطل پرستوں کے غلط ادعا اور جاہلوں کی تاویل کو صاف کریں گے“۔سنت وحدیث پر مطبوعہ کتابیں
الحمد للہ! اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں ایسے رجالِ کار پیدا کئے جنہوں نے باطل پرست جاہلوں کے اٹھائے ہوئے گردو غبار سے سنت کا چہرہ صاف کیا‘ امام شافعی سے ابن وزیر یمانی صاحب الرد من الباسم اور شیخ جلال الدین السیوطی صاحب ”مفتاح الجنة فی الاتجاج بالسنة“ تک اور ان سے آج تک نہ صرف عربی اردو میں بلکہ انگریزی اور یورپ کی دوسری زبانوں میں بھی قابلِ قدر تالیفات وجود میں آئیں‘ گذشتہ پچاس سال کے عرصہ میں اہل علم نے بیسیوں گرانقدر تصنیفات سے علمی کتب خانوں میں بیش بہا اضافہ کیا‘ قدمائے امت نے جو کتابیں تصنیف فرمائیں ان کی طویل فہرست راقم الحروف کی کتاب ”عوارف السنن مقدمہ معارف السنن“ میں مذکور ہے جو انشاء اللہ عنقریب طبع ہوگی‘ اس تیس چالیس برس میں جو ذخیرہ اس موضوع پر مدون ہوا ان میں چند کتابوں کا نام بطور نمونہ درج ذیل ہے۱- الحدیث والمحدثون ،محمد محمد ابوزہرہ (عربی) ۲- السنة قبل التدوین، محمد عجاج خطیب (عربی)
۳- الانوار الکاشفة ،شیخ عبد الرحمن یمانی // ۴- ظلمات ابی ربہ، شیخ محمد عبد الرزاق حمزہ //
۵- کتاب السنة ،موسیٰ جار اللہ قازانی // ۶- فی الحدیث النبوی ،شیخ مصطفی زرقا شامی//
۷- تدوین حدیث مولانا مناظر احسن گیلانی اردو ۸- بصائر السنة ،مولانا امین الحق صاحب طوری (اردو)
۹- فتنہٴ انکار حدیث افتخار احمد بلخی ۱۰- فتنہٴ انکار حدیث مولانا سرفراز صاحب
۱۱- سنت قرآن کریم کی روشنی میں مولانا غفار حسن ۱۲- حدیث قرآن کریم کی نظر میں از راقم الحروف
۱۳- احادیث النبی الکریم اپروفیسر روحی ۱۴- سنت کا تشریعی مقام مولانا محمد ادریس میرٹھی
۱۵- Stadies in Eorly Haddh titenatur ڈاکٹر مصطفی اعظمی ،انگریزی
مدرسہ عربیہ اسلامیہ کراچی کے درجہ تخصص کے رفقاء نے حسبِ ذیل مقالات کتابی شکل میں مرتب کئے ہیں:
الف: السنة النبویة والقرآن الکریم : للأستاذ محمد حبیب اللہ المختار عربی‘ اردو
ب: وسائل حفظ الحدیث وجہود الامة فی ذلک : از مولوی عبد الحکیم سلہٹی اردو
ج: علم مصطلح الحدیث واسماء الرجال وثمراتہ : از مولوی عبد الحق دیروی ‘ عربی
د: کتابة الحدیث وادوار تدوینہ: از مولوی محمد اسحاق سلہٹی ‘ اردو
ھ: الکتب المدونة فی الحدیث واصنافہا وخصائصہا : از مولوی محمد زمان کلاچوی‘ عربی
و: الصحابة وما رووہ من الاحادیث : از مولوی حبیب اللہ مہمندی‘ عربی
یہ چھ کتابیں ابھی تک زیور طبع سے آراستہ نہیں ہوئیں جس وقت امت کے سامنے یہ ذخیرہ آئے گا دنیا حیرت میں رہ جائے گی۔
اسی قیمتی ذخیرہ کی ایک قابلِ قدر کتاب الشیخ مصطفی سباعی مرحوم کی تالیف: السنة ومکانتہا فی التشریع الإسلامی“ اپنے موضوع پر اہم ترین کتاب ہے جو گیارہ سال قبل قاہرہ میں طبع ہوئی تھی‘ مؤلف موصوف اپنے وقت کے بہترین خطیب اور پُر جوش صاحب قلم تھے‘ موصوف نے ازہر سے عالمیت واستاذیت کی ڈگری حاصل کرنے کے لئے یہ موضوع اختیار کیا تھا‘ چنانچہ پورے ایک سو مآخذ سے یہ کتاب نہایت فصیح وبلیغ زبان اور شیرین وشگفتہ اسلوب میں تحریر کی‘ یہ کتاب تیس کے قریب بڑے بڑے عنوانات پر مشتمل ہے‘ جن میں سنت نبوی کے ہرگوشہ پر شافی بحث کی گئی ہے‘ ضمنی بحثیں نہایت عمدہ اور عجیب وغریب آتی ہیں ‘ مستشرقین کی خرافات وشبہات کے نہایت مؤثر اور فاضلانہ ومحققانہ جوابات کتاب کا بہترین اور قیمتی حصہ ہیں‘ اگر اس کتاب میں اس کے سوا اور کچھ نہ ہوتا تو اس کتاب کی قیمت کے لئے کافی تھا۔ مدرسہ عربیہ اسلامیہ کراچی کے دار التصنیف نے چاہا کہ اس گنجِ گراں مایہ کو اردو میں منتقل کیا جائے تاکہ نئی نسل میں یورپ کے پھیلائے ہوئے زہر کے لئے تریاق کا کام دے اور جدیدافکار میں سرایت کردہ سمت کے لئے اکسیر اعظم اور کبریتِ احمر ثابت ہو‘ ترجمہ کے لئے ہمارے مدرسہ کے درجہٴ تکمیل کے فارغ التحصیل مولانا احمد حسن ایم اے کا انتخاب کیا گیا اور اس پر مولانا محمد ادریس میرٹھی استاذِ حدیث مدرسہ عربیہ کی نظر اصلاحی نے سونے پر سہاگہ کا کام دیا‘ جلدِ اول طبع ہوچکی اور جلد دوم عنقریب زیور طبع سے آراستہ ہوگی‘ دعا ہے کہ حق تعالیٰ ہماری نئی نسل کو نئے فتنوں سے بچائے اور شیاطین یورپ ان کی متاعِ ایمانی کو لوٹنے کی جو تدبیریں کررہے ہیں انہیں خاک میں ملا دے۔
وصلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ صفوة البریة سیدنا محمد وآلہ وصحبہ وبارک وسلم
غیر عالم دین کا درسِ قرآن دینا
مفتی رفیق احمد بالاکوٹی
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ میں کہ:
میں بہادر آباد محلہ کا رہائشی ہوں اور اس کی مرکزی مسجد ”․․․․․․․․“ کا نمازی ہوں مسجد اور اس کے نمازی دیوبند مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں‘ اہل محلہ اور نمازیوں کی دینی تربیت کے پیش نظر مسجد میں ہفتہ وار مختلف علمائے کرام کے درس ہوتے ہیں‘ جن سے ہمیں بے حد دینی فائدہ محسوس ہوتا ہے‘ ماہِ مبارک میں یہاں یہ روایت چلی آرہی ہے کہ کسی معتمد اور مستند عالم دین کو بلاکر ان سے درسِ قرآن دلوایاجاتا ہے‘ چنانچہ اسی سلسلے میں حضرت مفتی عتیق الرحمن شہید اور مولانا عزیز الرحمن صاحب استاذ حدیث جامعہ عثمانیہ بھی تشریف لاچکے ہیں‘ امسال انتہائی حیرت انگیز طور پر ”تنظیم اسلامی“ مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب کو․․․․․․․․ درسِ قرآن کے لئے بلایا گیا اور تاحال ان کا درس جاری ہے۔ بندہ اور اس کے ہم فکر دینی درد رکھنے والے بہت سے نمازیوں کو اس بارے میں سخت تشویش اور ذہنی پریشانی کا سامنا ہے۔ مذکورہ بالا صورت کے تناظر میں آنجناب سے ان چند امور سے متعلق وضاحت مطلوب ہے:
۱- ایک غیر عالم اور مزید یہ کہ تنظیم اسلامی کے نظریات کے حامل شخص کو مسجد کے منبر پر درس قرآن کے منصب پر فائز کرنا شرعی نقطہٴ نگاہ سے کیا حکم رکھتا ہے‘ جبکہ تفسیر قرآن کی اہمیت ونزاکت کی بنا پر متعدد علوم پر دسترس ہونا مفسر کے لئے لازمی قرار دیا گیا ہے؟
۲- اس علاقے میں بیسیوں علمائے کرام کے ہوتے ہوئے موصوف کو درس کے لئے منتخب کرنا کیا علم دین کی ناقدری میں شمار نہیں ہوگا؟
۳- درس قرآن کی اہلیت کا اصل معیار کیا ہے؟ براہ مہربانی وضاحت سے تحریر فرمائیں۔
۴- موجودہ حالات میں ․․․ جبکہ یہ درس قرآن کے تقدس اور مسلک دیوبند کے تحفظ کا مسئلہ ہے اور اس سلسلہ کے جاری رہنے میں علاقے کی دینی اور نظریاتی فضا مسموم ہونے اور نمازیوں میں انتشار کا خدشہ بھی ہے ․․․ ہماری شرعی ذمہ داری کیا ہے اور ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
آنجناب سے گذارش ہے کہ ان امور کے بارے میں وضاحت کے ساتھ جواب تحریر فرماکر عند اللہ وعند الناس ماجور ہوں۔
مستفتی:حسن شاہ
الجواب باسمہ تعالیٰ
”درسِ قرآن“ قرآن کریم کا ترجمہ اور تفسیر بیان کرنے کا نام ہے اور علم تفسیر اس علم کو کہتے ہیں جس میں قرآن کریم کے معانی کو بیان کیا جائے‘ اس کے احکام کی حکمتوں کو کھول کر واضح کیا جائے۔ نیز مرادِ خداوندی کو متعین کیا جائے۔ اہل علم جانتے ہیں کہ ”علم تفسیر“ کے اس توضیحی عنوان میں علم تفسیر کی حقیقت‘ نزاکت اور اس کے حصول کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کو بہت ہی مختصر اور سادہ الفاظ میں تعبیر کیا گیا ہے‘ اس عنوان کی تفصیلات اور علمی ابحاث میں جائے بغیر یوں کہا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم‘ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے‘ اس کی ترجمانی اور تفصیل وتوضیح کے لئے ایسی لیاقت اور اہلیت درکار ہے‘ جو اس کلام کی عظمت کے شایانِ شان ہو‘ ورنہ معمولی لغزش غلط ترجمانی کا مرتکب بناکر اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے والے باغیوں میں شمار کروا دے گی اور تفسیر قرآن ودرس قرآن کا شوق دنیا وآخرت کی نجات وفلاح کی بجائے ہلاکت وبربادی کا ذریعہ بن جائے گا۔اسی خطرہ کے پیش نظر علماء کرام فرماتے ہیں اور دنیا کا عام اصول بھی ہے کہ دنیا میں کوئی بھی علم وفن ایسا نہیں جو اس تک پہنچنے والے متعین راستوں اور واسطوں کے بغیر حاصل ہوتا ہو‘ یہی اصول قرآن کریم کی تفسیر بیان کرنے والوں کے بھی پیش نظر ہونا چاہئے‘ اگر کوئی انسان اس اصول اور ضابطہ سے ہٹ کر خدا کی کتاب کو تختہٴ مشق بناتا ہے تو ایسا کرنا نہ صرف یہ کہ اللہ کی کتاب کے ساتھ ظلم وناانصافی ہے‘ بلکہ خود انسان اپنے اوپر بھی ظلم کرنے والا بن جاتا ہے۔ اسی عظیم خطرہ کی بنا پر علماء امت کے ایک طبقہ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ قرآن کریم کی تفسیر بیان کرتے ہوئے نبوی ارشادات سے آگے کوئی بھی لفظ زبان سے نکالا ہی نہ جائے‘ کیونکہ قرآن فہمی اور قرآن بیانی میں غلطی سرزد ہونے کی بناء پر انسان ان تمام وعیدات کا مصداق بن جاتا ہے‘ جو قرآن بیانی میں اپنی رائے اور مذاق ومزاج کی آلودگی شامل کرنے والوں کی بابت وارد ہوئی ہیں‘ لیکن علامہ جلال الدین سیوطی (م‘۹۱۱ھ) فرماتے ہیں کہ جمہور علمأ امت کی رائے کے مطابق قرآنی اعجاز کے اسرار ورموز کو سمجھنے کے لئے مطلوبہ استعداد اور صلاحیت کے حاملین کے لئے قرآن کریم کی تفسیر بیان کرنا جائز ہے اور یہ استعداد وصلاحیت علوم وفنون کی تقریباً ۱۵/ پندرہ گھاٹیاں سر کرنے کے بعد پیدا ہوتی ہے‘ جن میں لغت ‘ صرف‘ نحو‘ اشتقاق‘ معانی‘ بیان‘ بدیع‘ قرآء ات‘ اصول الدین‘ اصول فقہ‘ فقہ‘ حدیث‘ علم اسباب نزول‘ علم ناسخ ومنسوخ اور نور بصیرت ووہبی علم وغیرہ شامل ہیں۔ یہ علوم وفنون چونکہ ہمارے ہاں درسِ نظامی کے درسی نصاب میں شامل ہیں اسی بنیاد پر کہا جاتاہے کہ درسِ قرآن دینے والے کے لئے کم از کم درسِ نظامی کا فاضل ہونا ضروری ہے‘ کیونکہ جس آدمی نے اپنی زندگی کے آٹھ‘ دس سال ان علوم وفنون کے سائے میں گزارے ہوں اسے ان علوم میں اعلیٰ درجہ کا کمال اور مہارت اگر حاصل نہ بھی ہو تو کچھ نہ کچھ مناسبت تو ضرور حاصل ہوجاتی ہے اور اس سے ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ درس نظامی کے فاضل کو اعجاز قرآن کے بیان کرنے میں اپنی علمی بے مائیگی کا احساس دامن گیر رہے گا اور وہ اپنی طرف سے قرآن کریم کی تفسیر بیان کرنے اور الفاظ قرآنی میں مراد خداوندی متعین کرنے میں جاہلانہ بے باکی اور جرأت سے کم از کم محفوظ رہے گا۔ اس پر مستزاد یہ کہ مستند عالم دین جو بات اور جتنی بات کہے گا وہ سلف صالحین پر اعتماد اور استناد کی روشنی میں کہے گا اور یہ تفسیر قرآن کا اہم بنیادی اصول ہے کہ تفسیر قرآن کا بار گراں اٹھانے والا اپنی طرف سے الفاظ وتعبیرات اور مراد ومعانی منتخب کرنے کی بجائے اسلاف پر اعتماد کرتے ہوئے ان ہی کے ارشادات کو سامنے رکھے‘ یعنی نبی اکرم ا کے اقوال وافعال‘ آپ ا کے صحابہ کرام کے فرامین اور آراء کو تفسیر بیان کرتے ہوئے اساس وبنیاد سمجھے پھرحضور ا کے اسوہٴ حسنہ اور صحابہ کرام کے طرز فکر وعمل پر کار بند رہنے والے فقہاء ملت اور علمأ حق کے عقائد واعمال اور اخلاق وعادات کو اپنا سرمایہ اور مأخذ سمجھے‘ اگر کوئی مفسر قرآن یا مدرس قرآن اس اصول سے پہلو تہی کرتے ہوئے قرآن کریم کی تفسیر بیان کرنے کی ٹھان لے اور درس قرآن کے نام پر کتاب الٰہی کو تحتہٴ مشق بنائے تو ہم تک قرآن اور دین کی تشریحات پہچانے والے واسطوں اور ذریعوں کا کہنا ہے کہ وہ ناجائز کررہا ہے‘ اس کا یہ عمل ‘ دین یا قرآن کی خدمت نہیں‘ بلکہ امت میں فتنہ اور گمراہی کا ذریعہ ہے پھر ستم بالائے ستم یہ کہ یہ مفسر یا مدرس اپنے اعمال ونظریات کی وجہ سے سلف بیزاری اور الحاد سے متہم ہوچکا ہو۔ اگر ایسے شخص کو کتاب اللہ کا مفسر بناکر بٹھا دیا جائے اور مرادِ الٰہی کا ترجمان قرار دیا جائے تو پھر مسلمانوں کے عقائد ونظریات اور دینیات کا اللہ ہی حافظ ہے۔ چنانچہ حافظ جلال الدین سیوطی نے ”الاتقان فی علوم القرآن“ میں امام ابوطالب الطبری کے حوالہ سے مفسر کے آداب کے ضمن میں مفسر کے لئے ضروری شرائط کا تذکرہ یوں فرمایا ہے:”اعلم ان من شرطہ صحة الاعتقاد اولاً ‘ولزوم سنة الدین فان من کان مغموصاً علیہ فی دینہ لایؤتمن علی الدنیا فکیف علی الدین ثم لایؤتمن فی الدین علی الاخبار عن عالم فکیف یؤتمن فی الاخبار عن اسرار اللہ تعالیٰ ‘ولانہ لایؤمن ان کان متہماً بالالحاد ان یبغی الفتنة ویغر الناس بلیّہ وخداعہ کدأب الباطنیة وغلاة الرافضة․․․ الخ“۔(الاتقان فی علوم القرآن للسیوطی النوع:۷۸‘ج:۲۰ ص:۱۷۶‘ ط:سہیل اکیڈمی لاہور)
ترجمہ:․․․”جاننا چاہئے کہ مفسر کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پہلے تو اس کا عقیدہ صحیح ہو‘ دوسرے وہ سنت دین کا پابند ہو‘ کیونکہ جو شخص دین میں مخدوش ہو‘ کسی دنیوی معاملہ میں بھی اس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا تو دین کے معاملے میں اس پر کیا اعتماد کیا جائے گا‘ پھر ایسا شخص اگر کسی عالم سے دین کے بارے میں کوئی بات نقل کرے‘ اس میں بھی وہ لائق اعتماد نہیں تو اسرار الٰہی کی خبر دینے میں کس طرح لائق اعتماد ہوگا‘ نیز ایسے شخص پر اگر الحاد کی تہمت ہو تو اس کے بارے میں یہ اندیشہ ہے کہ وہ تفسیر بیانی کے ذریعہ فتنہ کھڑا کردے اور لوگوں کو اپنی چرب زبانی ومکاری سے گمراہ کرے‘ جیساکہ فرقہٴ باطنیہ اور غالی رافضیوں کا طریقہ ٴ کار ہے“۔مزید برآں جو شخص نظریاتی وفکری طور پر زیغ وضلال کا شکار ہو‘ عملی اعتبار سے بدعت وکجروی اور بے راہ روی کا علمبردار ہو اور روحانی لحاظ سے تکبر وغرور‘ نفس پرستی اور حب جاہ وحب مال کے علاوہ نفسانی خواہشات سے دوچار ہو تو حضرت لدھیانوی شہید کے بقول ایسا شخص جو تفسیر لکھے اور بیان کرے گا وہ قرآن کریم کی تفسیر نہیں ہوگی‘ بلکہ اس کے بدعت آلودذہن کا بخار اور بیمار دل کا تعفن ہوگا‘ ایسے فکری وروحانی مریضوں کے لئے قرآن کریم کی تفسیر بیان کرنا یا درسِ قرآن دینا تو کجا‘ علمأ تفسیر کے بقول قرآن فہمی کی کوشش کرنا بھی حرام ہے‘ کیونکہ ان لوگوں کی بیمار ذہنیت اور نفسانی خواہش کے غلبہ کی وجہ سے انہیں ہر ہر موقع پر اپنی بیماری اور نفسانیت کا عکس نظر آئے گا اور اپنے فاسد افکار وخیالات ‘ خود ساختہ تعبیرات وتشریحات کو عوام الناس کے سامنے قرآنی طشت میں رکھ کر پیش کرے گا اور لوگ اس کی جہالت کو علم‘ اس کی فاسد آراء کو قرآن کی تفسیر خیال کرتے ہوئے اسے اپنا پیشوا اور مقتدیٰ کے درجہ پر بٹھا لیں گے‘ اس طرح معاشرہ میں ضلالت وگمراہی کا طوفان برپا ہوجائے گا‘ چنانچہ ”الاتقان“ میں امام زرکشی کی ”البرہان“ کے حوالہ سے مذکور ہے جو پورے سوالنامہ کے جواب کے لئے بھی کافی ہے:
”اعلم انہ لایحصل للناظر فہم معانی الوحی ولایظہر لہ اسرارہ وفی قلبہ بدعة او کبر او ہوی اوحب الدنیا او ہو مصر علی ذنب او غیر متحقق بالایمان او ضعیف التحقیق او یعتمد علی قول مفسر لیس عندہ علم او راجح الی معقولہ وہذہ کلہا حجب وموانع بعضہا آکد من بعض ․․․ الخ“۔ (الاتقان للسیوطی:نوع:۷۸‘ ۲/۱۷۶‘ ط:لاہور)
ترجمہ:․․․”جاننا چاہئے کہ قرآن کریم کا مطالعہ کرنے والے پر وحی کے معانی ظاہر نہیں ہوتے اور اس پر وحی کے اسرار نہیں کھلتے‘ جبکہ اس کے دل میں بدعت ہو‘ یا تکبر ہو‘ یا اپنی ذاتی خواہش ہو‘ دنیا کی محبت ہو یا وہ گناہ پر اصرار کرنے والا ہو‘ یا اس کا ایمان پختہ نہ ہو یا اس میں تحقیق کا مادہ کمزور ہو‘ یا وہ کسی ایسے مفسر کے قول پر اعتماد کرے جو علم سے کوراہو‘ یا وہ قرآن کریم کی تفسیر میں عقل کے گھوڑے دوڑاتاہو‘ یہ تمام چیزیں فہم قرآن سے حجاب اور مانع ہیں‘ ان میں بعض دوسری بعض سے زیادہ قوی ہیں“۔الغرض جو شخص کسی بھی طور پر یعنی علمی‘ عملی‘ فکری واعتقادی‘ نیز دین ودیانت کے لحاظ سے قرآن کریم کی تفہیم وتشریح کا اہل اور حقدار نہ ہو‘ اگر وہ اس منصب پر بیٹھ کر تفسیر قرآن کے نام پر رائے زنی کرے گا تو وہ نہ صرف یہ کہ حرام کا مرتکب ہوگا‘ بلکہ ان تمام وعیدات کا مصداق ومستحق بھی ہوگا جو حضور ا نے ”رائے وتخمین“ کے ذریعہ تفسیر کرنے والوں کے بارے میں فرمائی ہیں‘ جن میں سرفہرست یہ ارشاد گرامی ہے:
”جس نے قرآن میں اپنی رائے سے کوئی بات کہی وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنائے اور ایک روایت میں ہے کہ جس شخص نے بغیر علم کے قرآن میں کوئی بات کہی وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بنائے“۔ (مشکوٰة:۳۵)
اس تفصیلی بحث سے سوالنامہ میں مذکور تمام سوالات کے جوابات تو کسی فرد‘ ادارہ یا تنظیم کا نام لئے بغیر تقریباً آچکے ہیں‘ تاہم اختصار کے ساتھ سوالوں کے ترتیب وار جوابات ذکر کئے جاتے ہیں:
۱- کسی بھی غیر عالم‘ بالخصوص جمہور علمأ امت کے افکار ونظریات سے منحرف شخص کو مسجد کے منبر پر مدرس قرآن کے منصب پر فائز کرنا شرعی نقطہٴ نگاہ سے بالکل ناجائز ہے۔
۲- مستند علمأ کے ہوتے ہوئے غیر مستند آدمی کو درس کے لئے بٹھانا نہ صرف یہ کہ علم دین کی ناقدری ہے‘ بلکہ قرآن کریم کے ساتھ زیادتی اور قرآن کی بے حرمتی بھی ہے۔
۳-درس قرآن کی اہلیت کا اصل معیار‘ تفسیر قرآن کے علمی مأخذ کی معرفت‘ وممارست‘ علمی رسوخ تام اور سلامتئی فکر ونظر ہے۔
۴- مذکورہ علاقہ کے صحیح العقیدہ مسلمانوں کی شرعی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ برائی کے ازالہ کے لئے اچھائی کی مقدور بھر کوشش کریں‘ مسلمانوں کے درمیان فتنہ وانتشار کی روک تھام کے لئے ”امر بالمعروف نہی عن المنکر“ کا احسن طریقہ اختیار کرتے ہوئے اہل محلہ‘ مسجد کمیٹی اور علاقہ کے بااثر حضرات کی باہمی مشاورت اور فہمائش کے ساتھ مذکورہ شخص کو فوری طور پر درس قرآن کی مصروفیت سے روک دیں تاکہ فاسد افکار ونظریات کی تبلیغ وترویج کا انسداد ہوسکے اور لوگوں کے درمیان فتنہ وانتشار برپا نہ ہو‘ نیز موصوف کی بجائے کسی مستند‘ راسخ العقیدہ‘ مضبوط عالم دین کو ان کی جگہ درسِ قرآن کے لئے مقرر کریں۔
کتبہ
رفیق احمد بالاکوٹیالجواب صحیح
محمد عبد المجید دین پوریجامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی
Subscribe to:
Posts (Atom)